• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ہم لوگ بڑے ہو رہے تھے تو اس وقت اپنے اردگرد ہر طرف ستر کے انتخابات کا چرچا دیکھا تھا۔ نوزائیدہ لیکن چھاجانے والی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے چيئرمین بھٹو کی کرشمہ جاتی تقریریں اور اس کے جیالے، مسلم لیگ کا سبز پرچم، اس کا انتخابی نشان شیر، پی پی پی کی تلوار، نعرے جئے جئے اور ٹھاہ ٹھاہ۔ دونوں پارٹیاں مدمقابل تھیں لیکن دونوں اطراف امیدوار وڈیرے سردار اور پیر میر۔ ایسے میں انتخابی امیدواروں کے جلو میں ایک نام مسکین سی صورت نوجوان کا بھی تھا ماندھل شر اور اس کا انتخابی نشان سائیکل۔ یہ آزاد امیدوار تھا۔ وڈیروں سرداروں پیروں کے پانی میں اکیلا ہی مگر مچھوں کے بیچ۔ کہتے تھے کہ اس کا تعلق کسانوں کی پارٹی سے ہے۔ ایسے زور والوں جنہیں پنجابی میں کہتے ہیں ڈھاڈھوں کے درمیان کھڑے کئی چھوٹے موٹے امیدوار لاٹھی اور چمک پر دستبردار بھی ہوگئے لیکن ہم نے سنا ماندھل شر انتخابات میں ڈٹا کھڑا رہا۔ جاگیردارانہ علاقے میں اسے جیتنے نہ دیا گیا۔ وڈیرے جیت گئے جو ہارے بھی تو وہ ستر کے انتخابات میں حکمران پارٹی میں شامل ہوگئے پھر سینیٹر بنے کہ حکومتی عہدے حاصل کئے لیکن ماندھل شر اپنے کام میں لگا رہا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا۔ کسانوں اور مزدوروں کی بات کرنے والے بھٹو کے آگے پیچھے وڈیرے سردار میر پیر تھے۔ وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اب ہاری مزدور کسان کے دن تھے کہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ اس کے لئے تو وہی جیسے سندھی میں کہتے ہیں ابا مرگیا بھیا پیدا ہوا ہم ویسے کے ویسے۔ یہ تب کے سکھر ضلع میں میرپور ماتھیلو تھا جہاں ماندھل اور اسکے ساتھ اسکا ایک ساتھی اور اسی علاقے کا قوم پرست کارکن اللہ بچایو مرناس تھا۔ اللہ بچایو مرناس کٹر سندھی قوم پرست کارکن اور ماندھل شربائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جام ساقی جیسوں کا ساتھی کسانوں کے حقوق کی تحریک کا کارکن-
یہ ایک ’’جوڑی‘‘ سمجھی جاتی تھی۔ یعنی کہ دوساتھی۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ جب بھٹو کی حکومت نے زرعی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا تو بھٹو کی پارٹی یا مقامی وڈیروں اور جاگيرداروں سرداروں نے اپنی اپنی زمینیں اپنے منشیوں اور حواریوں اور وفادار کمداروں اور کچھ مزارعوں کے نام پٹواریوں اور محکمہ ریونیو کی معرفت برائے نام منتقل کروالیں۔ ہزاروں اور سینکڑوں ایکڑوں کے مالکان کی زمینیں، چراگاہ شکار گاہ انہی کے پاس ہی رہیں۔ تبھی تو سندھ کے حبیب جالب ابراہیم منشی نے ازراہ تفنن کہا تھا یہ ’’ہاری کو سولہ ایکڑ زمین ملے گی چاند پر‘‘ یعنی کہ گھنٹہ۔
ماندھل شر اور اللہ بچایو مرناس نے کسانوں کے حقوق اور بے زمین ہاریوں میں زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینیں دلوانے کی مقامی سطح پر تحریک شروع کی یہ مگرمچھوں کے پانیوں میں رہ کر ان کے ساتھ دشمنی پالنے والی بات تھی۔
جب وہ مقامی ریونیو اور انتظامی افسر کے دفتر ہاریوں کو حقوق دلوانے گئے تو یہ پڑھ کر آپ کو انتہائی حیرت اور دکھ ہوگا کہ مزدوروں اور کسانوں کی بات کرنے والے بھٹو کے اس دور حکومت میں کسانوں کے حقوق کے ان دونوں کارکنوں کے ساتھ کیا ہوا۔ اور یہ آج کی سندھ کی سیاست کے طالب علموں کو معلوم تو کیا شاید کئی کو ان دو تاریخ ساز لیکن چھوٹے چہروں کے نام بھی یاد نہ ہوں۔ کہ بقول شخصے تاریخ چھوٹے چہروں کو ہمیشہ بھول جاتی ہے۔
سب ڈویژنل مجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر علی شیر قریشی نے پولیس کو یہ حکم دیا کہ انکے سامنے ہاریوں کے حقوق کی فریاد کرنے والے ان دونوں کو گرفتار کر کے انکے چہروں پر سیاہی ملکر انکا پورے میرپور ماتھیلو شہر میں جلوس نکالا جائے، انسانیت کی بے حد تذلیل تھی جو ماندھل شر اور اللہ بچایو مرناس کی ہوئی۔ سندھ کے ان دونوں سپوتوں نے یہ سب کچھ سندھ کے عوام کے حقوق مانگنے کی پاداش میں جھیلا۔ یہ انیس سو بہتر کی بات ہے۔ پھر ان دونوں کو کرائم کنٹرول ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔ سندھ کے غریب لوگوں کے حقوق کے لئے حقیقی طورپرجدوجہد کرنے والوں نے کیا کچھ نہ قربانیاں دیں۔ ظاہر ہے یہ ایک ایس ڈی ایم اپنے بل بوتے پر نہیں کرسکتا جب تک اسے اوپر سے ایسے احکامات نہ ہوں۔ یہ بھٹو کے جمہوری دور میں سیاسی مخالفین پر تشدد کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے۔
بھٹو دور کا بدنام زمانہ ڈیفنس آف پاکستان رولز یا ڈی پی آر کے تحت کئی ماہ و سال ماندھل شر نظر بند رہے یا پھر روپوش۔ یہاں تک کہ ضیافوجی آمریت کا دور آگیا لیکن ماندھل شر بجائے بھٹو دور کی ظلم کی داستانوں کے پھر ملک میںجمہوریت کی بحالی کی تحریک اور کسانوں کے حقوق کی تحریک میں جت گئے۔ ٹارچر کیمپ جس میں کلی کیمپ کوئٹہ بھی شامل رہا۔ کبھی سکھر جیل تو کبھی کراچی اور کبھی حیدرآباد جیل۔ کوڑے اور قید با مشقت۔ شیخ ایاز اور رسول بخش پلیجو جیسے وکلا ماندھل اور مرناس کے وکیل رہے تھے۔
ماندھل کا سب سے بڑا کام اسکے علاقے میں اسکے شر قبیلے کی عورتوں کانام نہاد غیرت کے نام پر قتل اورونی ہونا یا ’’سنگ چٹی‘‘ روکوانا تھا- دوسرا اپنی بیٹی زرقا سمیت اپنے قبیلے اور علاقے کی عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے سخت کوششیں۔ علاقے کی عورتوں کو دور دراز صحرائی گائوں کھروہی میں سیاسی شعور دینا تھا۔ یہی عورتیں علاقے سے نکلنے والی گیس کی کمپنی ماڑی انڈ س گیس میں مقامی لوگوں کو ترجیحی طور پرروزگار دلوانے کی تحریک میں ماندھل اور اسکے ساتھیوں کے شانہ بشانہ تھیں جس کی قیادت اس کی بیٹی زرقا نے کی تھی۔
لیکن کھروہی کا صحرا کیا پورا سندھ اداس ہے کہ ماندھل شر مر گیا۔ عوام کا یہ مجنوں جو مرگیا تو جنگل اداس ہے۔ لیکن اس صحرائے سندھ کے لوگوں کا اس سے پیار تھا کہ کھروہی کے صحرا میں ہزاروں لوگ اس کے جنازے میں شریک ہوئے۔
بیٹیوں پر بات چل نکلی ہے تو خیرپور سندھ کے چھوٹے شہر ہنگورجہ کی اس بیٹی سباس طاہرہ شاہ کی بھی درد کہانی سنتے جائو جس کی اپنی مرضی سے ایک نوجوان کامران لاڑک سے شادی کرنے پر اس کے شوہر سمیت اسے زبردستی اپنے ہی باپ اور چچائوں نے زہر پلایا۔ طاہرہ شاہ کو لاڑکانہ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال کے ڈاکٹروں نے بچالیا لیکن کامران جانبر نہ ہوسکا۔ ہنگورجہ کے ایس ایچ او نے بہرحال یہ برجستہ فرض شناسی دکھلائی کہ بروقت مبینہ ملزمان کو گرفتار کیا اور زبردستی بندوق کے نوک پر زہر پلائے ہوئے تشویشناک حالت جوڑے کو فوری اسپتال بھیجا۔
یہ سندھ ہے کہ ما قبل مسیح یونان نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت جہاں بیٹی ہونا بڑے دکھ جھیلنا اور پھر یوں زہر پلائے جانا ہے اپنے ہی باپ بھائی چچا کے ہاتھوں۔ لیکن اس پر ایک المیہ پر المیہ یہ بھی ہوا کہ پولیس نے لڑکے کے والد اور چچا کو بھی گرفتار کیا ہے جو وہاں منتیں کرنے اور جوڑے کو زہر پلائے جانے سے بچانے گئے ہوئے تھے۔
یہی وہ علاقہ ہے جہاں چند سال قبل ایک گھر میں ڈکیتی کی واردات کرتے وقت ملزمان نے گھر کی بیٹیوں کے ساتھ زبردستی اجتماعی آبروریزی کی تھی۔ بیٹیوں کو انصاف کیا ملتا کہ ان کے کنبے کو نقل مکانی پر مجبور ہوکر کراچی جا بسنا پڑا کیونکہ ملزمان کی سرپرستی علاقے کا اس وقت کا ایم پی اے کررہا تھا جس کا تعلق حکمران پیپلزپارٹی سے تھا۔ اب ہر ضلع اور ہر علاقے میں ایک ایک ماندھل شر تو نہیں ہوسکتا نا جو بیٹیوں کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔


.
تازہ ترین