• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلند قامت و بلند اقبال حضرت باراک حسین اوباما! صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ و سرپرست اعلیٰ جہانِ رنگ و بو !
سلام عقیدت! غائبانہ کورنش بجا لانے کے بعد بصد مسرت عرض ہے کہ آپ کی ولولہ انگیز قیادت، مہرباں رہنمائی اور شفیق سرپرستی میں دنیا جس سرعت سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی تیزی سے امن کا گہوارہ بننے کی جانب بھی گامزن ہے۔ تاہم یہ خادم آداب نیاز مندی کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر جناب اور اہلِ یورپ کی چند ایسی غیر منطقی پالیسیوں پر نظر ثانی کی استدعا کرنا چاہتا ہے، جو تیسری دنیا خصوصاً عالم اسلام میں بے چینی اور عدم استحکام کا سبب بن رہی ہیں۔
حضور والا! معلوم ہوا ہے کہ آپ کی دختر نیک اختر ایک ریستوران میں ویٹر کی نوکری کرتی ہیں، جہاں وہ گاہکوں کو کھانا پیش کرنے کے علاوہ میز بھی صاف کرتی ہیں۔یہ اندوہناک خبر سن کر اس عاجز کے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ یقین فرمائیں کہ ہمارے ہاں تو کوئی ہیڈ کلرک بھی ایسی نیچ حرکت کا نہیں سوچ سکتا اور خود ہم اپنے بچوں تو کیا، بھتیجوں اور کزنوں کے لئے بھی وزارت سے کم منصب خاندان کی توہین سمجھتے ہیں،پھر دنیا کے سب سے با اثر سیاستدان نے کیسے دل پر پتھر رکھ کر معصوم بچی کو اس غلیظ کام پر لگا دیا؟ آپ تو وہ کوزہ گر ہستی ہیں کہ ہم جیسے قطروں کو بھی گوہر کر دیں، مگر گھر کی باری آئی تو ایسی پستی ؟ اگر صاحبزادی کو کسی کام کے ذریعے تجربے کی بھٹی سے گزارنا مقصود تھا تو اس سے کوئی شایانِ شان کام لیتے۔میرٹ پر تو اسے امریکہ کے تاج و تخت کا وارث ہونا چاہیے،تاہم کم از کم آپ اسے کوئی وزارت تودیتے یاغیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کر کے انہیں سپر پاور کی پالیسی کے تحت ہدایات دینے کا ٹاسک ہی دے دیتے۔ کرنی آپ نے مرضی ہے لیکن سچ پوچھئے تو بچی کی ذہانت اور خداداد صلاحتیں اقوام متحدہ کی جنرل سیکرٹری کے عہدے کی متقاضی ہیں۔
گستاخی معاف ! ایسی پسماندہ اور بیمار حرکات پر ہمیں اہل یورپ اور ان کی اقتدا میں چلنے والے دیگر حکمرانوں سے بھی گلے ہیں، جنہوں نے ہمیں ذلیل کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ابھی تک اس طعنے نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا کہ سویڈن کا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت میں شامل ہونے کے لئے پیدل آیا تھا۔ ہمارے ایک وزیر با تدبیر تو برملا کہتے ہیں کہ یہ حرکتیں سستی شہرت حاصل کرنے کا بہانہ ہیں۔ کبھی برطانوی کرائون پرنس شہزادہ چارلس پولیس کو دے دلا کر اپنا چالان کراتا ہے۔ کبھی ہالینڈ اور ڈنمارک کی ملکائیں یا کوئی یورپی وزیراعظم سائیکل چلاتے ہوئے فوٹو بنواتے ہیں۔ کبھی اپنے دور میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیگم ٹرین میں سفر کرتے ہوئے جان بوجھ کر ایک اسٹاپ آگے اترتی ہے اور جرمانہ دیتی ہے۔ کبھی جب بلیئر صاحب کے بیٹے کو پولیس شراب نوشی پر گرفتار کرتی ہے تو موصوف خود تھانے میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ مارگریٹ تھیچر کو آئرن لیڈی کہلانے کا بڑا شوق تھا مگر محترمہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں تمام اخلاقی حدود پھلانگتے ہوئے اتوار کے روز اپنے اور بچوں کے کپڑے دھو کر 10ڈائوننگ اسٹریٹ کے مختصر صحن میں سوکھنے کے لئے ڈالتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ڈیوڈ کیمرون صاحب کو دیکھیے، یورپین یونین کے حوالے سے محض ایک ریفرنڈم ہارنے پر مستعفی ہو گئے۔ اس ناخوشگوار موقع پر جس خوشگوار موڈ میں آپ اپنے ہاتھوں سے گھر کا سامان 10ڈائوننگ اسٹریٹ سے نکال رہے تھے، اس سے لگ رہا تھا کہ جیسے انہوں نے کوئی قابل فخر کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران انہوں نے بیگم صاحبہ کو گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے پندرہ سو پونڈز میں سیکنڈ ہینڈ چھوٹی کار خرید کر دی اور اپنے لئے جگ ہنسائی کا ساماں کیا۔ اسی مہینے کے آغاز میں سنگا پور کے وزیراعظم لی جونیئر اپنی بیگم کے ہمراہ سرکاری دورے پر آپ کے دربار میں واشنگٹن پہنچے۔ خاتونِ اول محترمہ ہوچنگ نے سنگا پور کے ایک معذوروں کے ادارے میں بنایا گیافقط گیارہ ڈالر کا مالیتی پرس اٹھا رکھا تھا (شرم تم کو مگر نہیں آتی) اسی ماہ کا ایک اور افسوسناک واقعہ ہے کہ سویڈن کی تاریخ کی کم عمر خاتون وزیر کو مقررہ حد سے زیادہ شراب پی کر گاڑی چلانے پر پولیس نے پکڑ لیااور اسے وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ نیک بخت عائدہ نے مسلمان ہونے کے باوجود اس معمولی سی بات پر استعفیٰ دے دیا۔ خود آپ نے ویتنام کے شہر ہنوئی میں ایک معمولی ریستوران میں پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا کھایا، جسے شریفوں کا وتیرہ ہر گز قرار نہیں دیاجا سکتا۔ خط کی تنگ دامنی کی بنا پر محض چند شرمناک مثالیں عرض کی گئی ہیں، ورنہ تو اس طرح کی بے وقوفیوں پر کئی دیوان لکھے جا سکتے ہیں۔
حضور والا! سیاست دنیا کا سب سے معزز اور طاقتور پیشہ ہے۔ جس کی آبرو طمطراق، تزک و احتشام، کروفر، جاہ و تکبر اور گردن کی بلندی میں پنہاں ہے۔ اختیارات اچار ڈالنے کے لئے نہیں، خوب استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر بندہ اقتدار میں آ کر بھی اختیارات استعمال نہ کرے اور بچوں کے کل کے لئے چند ٹکے جمع نہ کر سکے۔نیز صاحبِ اقتدار ہوکر عوام کی طرح دھکے کھاتا پھرے، جرمانے ادا کرتا رہے اور بات بات پر استعفے دیتا پھرے تو پھر تُف ہے ایسے اقتدا رپر۔ اگر سیاستدان خود ہی سیاست کو بے کیف اور بے توقیر کرنے اور غیر منافع بخش شعبہ بنانے پر تُل جائیں تو پھر تین حرف ایسی سیاست پر۔ آپ کو زچ کرنا مقصود نہیں، فقط آپ کا ضمیر جگانے کی غرض سے اشارتاً عرض ہے کہ آپ کے ملکوں میں مسلمان حکمرانوں کی جائیدادیں آپ سے زیادہ ہیں۔ سرے محلوں سے لے کر مے فیئر فلیٹس تک، لندن کے بیش قیمت اسٹوروں سے لے کر ہسپانیہ، یونان اور اٹلی کے تفریحی جزیروں میں محلات تک، یورپی ساحلوں سے لے کر فرانس کی تین تین سو سالہ قدیم شاہی حویلیوں کی ملکیت تک اور سوئس بینکوں کے بھاری اکائونٹس سے لے کر امریکہ کی خیرہ کن کمرشل جائیدادوں تک، نیز اپنے اپنے ملکوں میں فیکٹریوں، مِلوں، ذاتی جہازوں، بحری بیڑوں اور شاہی محلات تک اللہ کا ہم پر بڑا کرم ہے۔
جناب عالی! جس نامعتبر سیاست پر آج چند سطریں عرض کی گئی ہیں وہ ہمارے ملکوں میں عوام کے اندر بے چینی پید اکرتی ہے اور لوگ آپ کی مثالیں دے کرہمیں دشنام اور تعزیر کا سزاوار ٹھہراتے ہیں۔ فلاحی ریاستیں بنانے کے جنوں نے خود آپ لوگوں کو کہیں کا چھوڑا ہے اور نہ ہمیں۔ اوپر سے اپنے اداروں پر آپ کا کنٹرول اتنا نہیں کہ پاناما لیکس جیسے شوشے چھوڑ کر ہمیں بدنام اور رسوا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا۔ بصد ادب التماس ہے کہ براہِ کرم اپنا چلن بدلئے اور ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلئے تاکہ آبروئے سیاست کو بحال کیاجا سکے۔ کم از کم صاحبزادی سے یہ گھٹیا کام فوراً چھڑوائیے۔ اگر آپ کے مالی حالات اتنے ہی دگرگوں ہیں کہ آپ کے پھول جیسے بچے ہوٹلوں میں ویٹر کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں تو یہ خادم آپ ہی کے ملک میں اپنا ملکیتی ایک ادنیٰ فائیو اسٹار ہوٹل اس بچی کو تحفتاً پیش کرنا چاہتا ہے، گر قبول افتد،زہے عزوشرف۔ دعا گو: آپ کا ایک خادم۔

.
تازہ ترین