• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
69 برس گزر چکے ہیں اور ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی ہٹ رہا ہے حکمران آتے ہیں چلے جاتے ہیں ہر آنے والا اقتدار ملنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے مقتدر لوگوں پر طرح طرح کے الزامات کی بارش برساتا ہے ہم یوں کردیں گے ہم وہ کردیں گے لیکن مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی سارے وعدے سارے دعوے ہوا ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات تو مسند تک پہنچنے کی سیڑھی ہوتے ہیں عوام کو بے وقوف بنانے کے حربے ہوتے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تین مہینے کا دعویٰ کیا تھا اب تو تین سال بھی گزر چکے سلسلہ وہیں کا وہیں ہے۔ یعنی وہی ڈھاک کے تین پات اب بات تین ماہ سے نکل کر تین سالوں پر چلی گئی ہے تاریکی (لوڈشیڈنگ) کا راج پورے ملک پر حکمرانوں کی طرح چل رہا ہے جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں جو کر رہے ہیں اس کا اظہار نہیں کرتے کہ کہیں حزب اختلاف اور عوام ان کی گردن نہ ناپ لیں ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے حزب اختلاف کی جماعتیں الزامات پر الزامات لگا رہی ہیں حکمران ایک کان سے سنتے ہیں دوسرے سے نکال دیتے ہیں پنچوں کا کہا سر آنکھوں پر پرنالہ وہیں گرے گا اپنے پیش رو حکمرانوں کی مانند یہ بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ گزشتہ69برسوں سے اس میں مسلسل آبادی کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے ہمارے منصوبہ ساز اور حکمران دونوں کو اتنا اہم عوامی ضرورت کا مسئلہ نہ نظر آرہا ہے نہ احساس ہو رہا ہے پورا ملک ہی بجلی کی کمی کا شکار ہے کہیں زیادہ کہیں کم۔ اگر موجودہ بجلی کے نظام میں بجلی ساز یونٹ جو کسی نہ کسی خرابی کے باعث یا اسٹینڈ بائی پر موجود تو ہیں لیکن ان سے کام نہیں لیا جا رہا یہ تمام یونٹ اگر کام کرنے لگیں تو بجلی کی کمی بڑی حد تک کم ہوسکتی ہے مگر حکمران صرف وعدوں پر وعدےکئے جا رہے ہیں اور یوں ہی ان کی مدت اقتدار پوری ہوجائے گی۔آنے والوں یا آنے کے خواہش مندوں کی جانب سے ہر طرح کی الزام تراشی کا ڈرامہ شروع ہوچکا ہے نئے الیکشن میں پندرہ سولہ ماہ کا عرصہ رہ گیا اب جماعتوں نے آنے والے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے لیکن موجودہ مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔
اللہ نے پاکستان کو جن قدرتی وسائل سے نوازا ہے اگر حکمران اور ان کے منصوبہ ساز اپنی دیدہ بینا سے دیکھیں تو ہمارے آبی وسائل جتنے بھی ہیں جیسے بھی ہیں ان سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بجلی کا بحران یقیناً ختم ہوسکتا ہے۔ آزاد کشمیر میں دریائوں کے بہائو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں دوسرا علاقہ گلگت بلتستان کا ہے جہاں رب کائنات نے وافر مقدار میں ایسے مواقع دئیے ہیں جنہیں استعمال کر کے جگہ جگہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ گلگت بلتستان کا علاقہ سیاحت کے لئے بھی بہترین ہے اگر سڑکیں درست بنا دی جائیں تو اس سے بھی بے پناہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر گھڑی کی سوئی کالا باغ ڈیم پر آکر اٹک گئی ہے تو کیا سارے منصوبے سارے کام ہی معطل ہو کر رہ جائیں گے جب کالا باغ پر اجتماعی تفہیم ہوجائے تب اگر کام کیا جائے گا تو بہتر ہے لیکن اس سے قبل دیگر قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کا بجلی کا مسئلہ جتنا ہوسکتا ہے کم کیا جائے اور اگر کالا باغ ڈیم بنانا ہی ضروری ہے تو کیوں نہیں بنایا جا رہا کیا تربیلا ڈیم بنانے کے وقت احتجاج نہیں ہوا تھا یقیناً جن لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے وہ شور تو مچاتے ہیں۔ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم بناتے وقت کتنے خاندانوں کی زمین زیر آب آئی تھی کتنے لوگوں نے اپنی زمین بچانے کے لئے احتجاج کیا تھا لیکن حکومت کا ڈنڈا سخت تھا اگر موجودہ یا آنے والے حکمران طے کرلیں کہ کالا باغ ڈیم بننا ضروری ہے تو کتنے لوگ احتجاج کریں گے صرف حزب اختلاف کی جماعتیں حکمرانوں سے اقتدار چھیننے انہیں اقتدار سے گرانے کے لئے لگی رہتی ہیں اور لگی رہیں گی اور بس اگر حکمران وقت طے کرلیں جیسا کہ وہ کبھی کبھی اپنے من پسند کاموں کے لئے کرتے بھی ہیں اور وہ کام کر گزرتے ہیں کسی سے مفاہمت اور مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کہنے کے لئے، دریا بہنے کے لئے ہے کوئی کچھ کہتا رہے وہ اپنی من مانی کر ہی گزرتے ہیں کیا کالا باغ ڈیم یا دیگر اور ڈیم اس قدر غیر اہم ہیں کہ ان پر صرف زبانی کلامی گفتگو ہی کی جائے اور مفاہمت نہ ملنے کے باعث انہیں لٹکا کر رکھا جائے اگر کالا باغ ڈیم اتنا ہی غیر اہم ہے تو اسے بالکل ہی ترک کردینا چاہئے ورنہ اس کی تکمیل کے لئے جو بھی اور جیسا بھی قدم اٹھانا پڑے اٹھانا چاہئے تاکہ ملک میں پانی کی فراہمی اور بجلی کی کمی پوری کی جاسکے۔ جب عوام کے پانی اور بجلی کے مسائل حل ہوجائیں گے تو از خود احتجاج کرنے والوں اور شور مچانے والوں کی بولتی بند ہوجائے گی اگر اس میں سول حکمرانوں کو کوئی دقت یا دشواری نظر آتی ہے تو اس کے آغاز و تکمیل کی ذمہ داری افواج پاکستان کے سپرد کر دی جائے اگر ہمارے آنے والے اور جانے والے غرض تمام سیاسی لیڈر مل کر ہمت کرلیں تو ملک میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر سے بجلی کی کمی کے ساتھ ساتھ پانی کی وافر مقدار بھی جمع کی جاسکتی ہے جس سے زراعت اور پینے کے لئے پانی میسر آسکتا ہے ہاں اگر حکومت چاہے تو سب کچھ ہوسکتا ہے صرف خواہش کے اظہار سے ایسا ممکن نہیں ہوتا دراصل ہمارے حکمران سب کے سب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے احکامات سے بندھے ہوتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر وہ بے چارے کچھ نہیں کرسکتے اور وہ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کسی بھی طرح کسی بھی معاملے میں خود کفیل ہو، جس طرح حکمرانوں نے جوہری قوت حاصل کرنے کے لئے کسی کی ایک نہیں سنی تھی ایسے ہی اگر ڈیم خصوصاً کالا باغ ڈیم بنانے کے لئے پر عزم ہوجائیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ انہیں اپنے ملک کو پانی اور بجلی میں خود کفیل بنانے کے لئے وہی جذبہ وہی عزم اپنانا ہوگا جو جوہری قوت کے حصول کے لئے اپنایا گیا تھا جس سے وطن عزیز نے جوہری قوت حاصل کرلی جبکہ دنیا بھر کی پیشتر قوتیں آج بھی اس کے خلاف ہیں اگر ہمارے حکمران ہمت کرلیں اور ٹھان لیں کہ کالا باغ ڈیم اور دیگر چھوٹے بڑے ڈیم بنانے ہیں تو کون سی طاقت ہے جو ان کے آڑے آئے گی اور مار پیچھے پکار تو ہوتی ہی رہتی ہے ڈیم بنائے جانے کے بعد اگر کچھ شور شرابا ہوتا بھی ہے تو ہوتا رہے کام تو مکمل ہوجائے گا۔ میٹرو ٹرین یا ایسے ہی دیگر منصوبوں سے بہتر ہے کہ اس سرمائے سے ڈیم بنائے جائیں جو یقیناً ان حکمرانوں کے لئے ایک مثبت اور ان کی حکومت کا عظیم کارنامہ ہوگا جس سے انہیں یقیناً سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہمت قوت اور فیصلہ کرنے کی طاقت عطا کرے تاکہ وطن عزیز اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ آمین


.
تازہ ترین