• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ انتخاب میں دو تہائی اکثریت بے مثال ہے۔ اس امر کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو عوام میں کلیتاً گزشتہ ناقص کارکردگی کی عکاسی ہے۔ ان انتخابات میں ووٹروں نے ملک میں رائج اقتصادی ، سماجی اور معاشرتی نظام کے خلاف آواز بلند کی ہے جس نے انہیں اپنے جائز حقوق سے محروم رکھا ہوا تھا۔ دوسری وجہ ایک بدستور مروجہ تبدیلی۔پھر مسلم لیگ ن کی قیادت پرکما حقہ اعتماد کا اظہار کہ وہ حتی المقدور اس صورتحال کی اصلاح کریں گے!
ان انتخابات میں حیرتناک واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ۔ کئی بڑے بڑے برج زمین بوس ہوئے ۔ اسمبلیوں میں تقریباً ایک تہائی نمائندے پہلی بار منتخب ہوئے۔ان میں متعدد لوگ یعنی صحافی اور کرکٹ سپرا سٹار’’ نو آموز سیاستداں‘‘، عمران خان جیسے امرا شامل ہیں۔ وفاقی ایوانہائے تجارت و صنعت کے ارکان بھی منتخب ہوئے ہیں اور دونوں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لئے۔ یہ نتائج اس عوامی فکر ونظر کے آئینہ دار ہیں جس کے باعث اب ایلیٹ طبقہ یعنی زمیندار اور جاگیرداروں کے علاوہ کاروباری طبقےکے افراد اوردیگر مختلف افکار کے لوگ بھی منتخب ہوئے ہیں۔
عوام نے اس طبقے کو بالخصوص رد کیا ہے جو اونچے درجہ کاطبقہ کہلاتا ہے جس میں بیرونی ممالک سے متعلقہ عمائدین کی بھرمار ہے۔ جو اپنے ملک میں غیرملکی مفادات کی نگہداشت کرتے ہیں۔ جو خطاب یافتہ ہیں، یعنی ’’سر‘‘ ’’رائے بہادر‘‘ وغیرہ یا وہ کاروباری حضرات جو دیگر ملکوں کی بطور ان کے قونصل جنرل کے یا بطور مشیر اور دیگر طریقوں سے ان کی نمائندگی کے فرائض ادا کرتے ہیں اور اپنے ملک سے غمازی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا تو بالخصوص’’ قلع قمع‘‘ ضروری ہوگیا ہے، جو دہری شہریت کے حامل غیر ملکی ذاتی دوستوں کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ مزید برآں‘ عوام نے اگرکسی ایک اُمیدوارکےحق میںاورکسی دوسرے کے خلاف ووٹ ڈالا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اقتصادی مستقبل کو محفوظ کرنے کی خاطر موجودہ سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی نظام کی تبدیلی کے حق میں عندیہ دیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ آئندہ بھی عوام ایسی ہی تبدیلیوں کی خاطراپنی رائے دے سکتے ہیں۔اگر موجودہ سیاستدانوں نے اور ان کی پارٹیوں نے عوام کی سیاسی اور معاشرتی بہبود کے لئے خاطر خواہ کام سرانجام نہیں دیا، تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں عوام کی رائے ان کی موجودہ رائے کے برعکس ہوگی۔ لہٰذا یہ اعتماد کا ووٹ بالعموم مسلم لیگ ن اور اس کے سرکردہ میاں محمد نواز شریف پر ہے۔ یہ عمل بھی قابلِ فروگزاشت نہیں کہ اعتماد قائم نہ رہا تو حالات موجودہ صورتِ حال دگرگوں ہو سکتے ہیں!
اقتصادی پیکیج: تجارت کے موافق، اور بالعموم صنعت کے مخالف اقتصادی پیکیج قابلِ غور ہیں۔ المختصر یہ کہ پیکیج کے تحت کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں کثیر کمی کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے کئی تفرقات یعنی اناملیز رفع ہونا چاہئیں۔ مثلاً فاضل پرزوں اور دیگر پارٹس پر کسٹم ڈیوٹی کم ہے جبکہ ان کی مقامی طور پر فراہمی یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور ’’ سم اسمبلی‘‘ پر ڈیوٹی زیادہ۔ ان معاملات پر حکومت کی نظرِ ثانی کے باوجود اصلاح احوال کی اب تک کوئی صورت نہیں نکلی۔ ان بے قائدگیوں کو دور کرنے کیلئے ایک۔ اناملی کمیٹی۔ANOMALIES COMMITTEE تشکیل دینا چاہئے یا پھر انہیں ٹیرف کمیشن کے ذریعے دور کیا جائے۔ من حیث المجموعی بظاہر تو موجودہ پیکیج سے تجارتی حلقوں کو ہی فائدہ ہے، اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ کی حوصلہ افزائی ہے، جبکہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کو دھچکہ لگاہے۔ روزگار کی فراہمی، پیداواریت اور برآمدات میں اضافہ کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ ایوب ۔شعیب دور سے اب تک صنعتی شعبے کے لئے محض زبانی جمع خرچ ہی ہے۔ قومیائی گئی دس بنیادی صنعتیں ، جن میں فولاد سازی اورا نجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں آج بھی کسمپرسی کے حال سے گزر رہی ہیں۔ یہ تمام صنعتیں جدید ترین ٹیکنالوجی،بلند سطح ویلیو ایڈیشن اورکثیر المقدار پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہیں اور برآمدات کے ذریعے مالیاتی خسارے، تجارتی عدم توازن اور افراطِ زر کوکم کر سکتی ہیں۔جبکہ ہماری روایتی صنعتیں محض روپے کی گرتی ہوئی قدر کے بل پر مال برآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان کا موجودہ مالیاتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کی وجہ سے ہے۔ تجارتی توازن میں خلا ہے اور ادائیگی کے توازن میں کمی ۔ اس امر سے اقتصادی صورتِ حال کی ابتری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل صنعتی پیکیج میں مضمر ہے نہ کہ تجارتی پیکیج میں جیسا کہ موجودہ اقتصادی پیکیج میں برملاہے یعنی فری ٹریڈ نہیں۔ بلکہ ملک و قوم کی توقعات کے مطابق پالیسی!
ٹیکس کون نہیں دیتا؟
مزید برآں ، سب سے زیادہ ٹیکس تجارتی شعبہ سے نہیں بلکہ صنعتی شعبہ سے حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ ٹیکس کم مائیگی عموماً تجارتی شعبہ میں ہے جو صنعت کے مقابلہ میں غیر منظم شعبہ ہے۔ دیکھا جائے تو منجملہ صنعتکاری ہی ایک واحد منظم شعبہ ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ زرعی شعبہ کا حصہ عشرِ عشیر ہے۔ ادھر اقتصادی ماہرین اور ٹیکس کے منصوبہ ساز کچھ بھی کہیں ، مگر ہماری زراعت کے شعبہ کی پیداوار ناقص ہی ہے۔ قومی خزانے سے جتنا اس شعبہ پر خرچ ہوتا ہے اتنا فائدہ اس سے حاصل نہیں ہوتا۔ فصلوں کی پیداوار کم ہونے کے باعث زراعت کے شعبہ میں اصل آمدنی کم ہوتی ہے۔ ایسے زمینداروں کا جو سیاست سے وابستہ ہیں، بنیادی ذریعہ آمدنی ’’سیاسی کاروبار‘‘ ہے۔ چنانچہ معاملات کی درستگی کے لئے جس قدر جلد ممکن ہو ، ایک خطہ متارکہ قائم کرلینا چاہئے۔منشیات کے کاروبار کی اقتصادیات علیحدہ ہے۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ظاہرہے کہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ایک تجارتی شعبہ وہ بھی ہے جس کے پاس ’’ اسٹریٹ پاور‘‘ ہے۔
جو ’’شٹر پاور‘‘ بھی کہلاتی ہے اور جسے کوئی ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کرتا۔ ایک کاروبار ایسا بھی ہے کہ جس میں کوئی تحریری ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے کاروبار میں افغانستان سے تجارت یا اسمگلنگ اور ایسے دوسرے بہت سے کام شامل ہیں جو ہر قسم کے ٹیکس سے مبرا ہیں۔ ایسے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اپنی آمدنی اور اخراجات کا کوئی حساب ہی نہیں رکھتے‘ تو وہ یہ کیسے جانیں کہ انہیں کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے ۔ یہ عذر ہے۔ یقیناً جب وہ آمدنی کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں، تو انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے۔ ان تلخ حقائق کے پیش نظر ٹیکس کے شعبہ کی کمزوریوں کو بھی دور کرنے کا شعور پیدا کرنا چاہئے۔ اسی ٹیکس کی وصولی سے ریوینیو میں کثیر اضافہ ہوگا۔بنک منافع کی شرح بھی کم ہونے کے باوجود زیادہ ہے۔ اس شرح سے سرمایہ کاری کے رجحان اور پیداوار میں اضافہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اگرچہ انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کی شرح میںکثیر کمی واقع ہوئی ہے، تاہم اگر آمدنی ہو تو اس پر ٹیکس لگے گا ۔ ادھر ٹیکس کے بنیادی نظرئیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جو باعثِ تشویش ہے۔ ٹیکس کا نظام مفروضہ آمدنی کے فرسودہ نظریہ پر قائم ہے، یعنی آمدنی ہو نہ ہو ، انکم ٹیکس ضرور دینا پڑے گا۔ انکم ٹیکس کی کٹوتی کا نظام اس پر مستزاد: آمدنی خواہ ٹیکس کے قابل ہو یا نہ ہو، درآمدات اور دیگر خریدو فروخت اور سپلائی پر ٹیکس منہا کر لیا جاتاہے۔ ٹرن اوور ٹیکس اس کے اضافی ہے۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف صارف کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، بلکہ سرمایہ کار کے سرمایہ میں بھی غیرضروری کمی واقع ہوتی ہے، یعنی ورکنگ میں کمی اور اس پر ٹیکس۔ یہ ناروا طریقہ کار دوسرے ممالک خصوصاً ان ممالک کے طریقہ کار سے یکسر متضاد ہے، جن سے ہمارے صنعتی اور تجارتی شعبوں میں تقابل ہے یا جن سے ہمسری کا ہمیں دعویٰ ہے۔ مثلاً بھارت کے مختلف صوبوں میں سیلز ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے سات فیصد تک ہے اور یہی صورتِ حال ہم پلہ دوسرے ملکوں میں ہے۔ وہاں مقامی صنعتوں میں فروغ کی خاطر بہت سے استثنیٰ ہیں۔ خصوصاً جہاں ویلیو ایڈیشن ہو ، وہاں مفروضہ ٹیکس بھی نہیںاور وہاں ادائیگی کے وقت وافر کٹوتی اس صورت میں ہوتی ہے،جہاں حقیقت میں ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ اور اس قسم کے مفروضہ ٹیکس کاٹ کر اسے بعد میں ریفنڈ کرنے کا تصور موجود نہیں ، جو پاکستان میں ہے۔ اس قسم کے ٹیکس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ، اس کے ریفنڈ کی تگ و دو میں وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں اورتقریباً 30 فیصد تک کٹوتی جو سرمایہ کار کی جیب میں لوٹتی ہی نہیں۔ نہ جانے یہ کہاں پہنچتی ہے؟ زیادہ تر یہ عمل ہمارے ہی ملک میں روا ہے اور وہ بھی حکومت کے عین زیرِ سایہ اور نظروں میں:مگر کسی کو مجال نہیں کہ کسک جائے۔
لیس للانسان الا ماسعٰی
تازہ ترین