• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضرورت پڑی تو پارٹی آئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے،ڈاکٹرفاروق ستار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ایم کیو ایم پاکستان کے  ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر  فاروق ستار نے کہا کہ   ایم کیو ایم کے آئین کی اس شق کو تبدیل کرنا چاہیں گے جس میں فیصلوں کا اختیار یا ہمارے فیصلوں کی توثیق کا اختیار بانی تحریک کے پاس ہے، ہم نے زبانی نہیں عملی طور پر بانی تحریک کا پارٹی آئینی اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا، بانی تحریک نے ایم کیو ایم کے آئین کی اس شق کا جو استعمال کیا وہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہے، پاکستان کا آئین تمام سیاسی جماعتوں کے آئین سے بالاتر ہے، ہم نے پاکستان کے آئین سے رہنمائی لیتے ہوئے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیے، ہمارے فیصلے کو عدالت میں لے جایا گیا اور ضرورت پڑی تو پارٹی آئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔وہ جیو نیو زکے پروگرام’’کیپٹل ٹاک‘‘میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ ڈاکٹرفاروق ستار کا پروگرام کے دوران مزید کہنا تھا کہ میں نے لندن سے رابطہ توڑلیا اور پاکستان میں فیصلے کرنے کا اعلان کیا، اگر آپ سمجھتے تھے کراچی کے امن میں یہ عنصر رکاوٹ ہے اور ہم نے یہ رکاو ٹ دور کردی تو ہمارے ہاتھ مضبوط کیے جائیں، ہم نے پہلے ڈیل نہیں کی اب ڈیل کرناچاہتے ہیں، ہم کراچی میں اپنی جائز سیاسی اونرشپ چاہتے ہیں، کراچی میں ہماری 80فیصد نمائندگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مثبت اقدام کا خیرمقدم کرنے کے بجائے ہماری حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔کنور نوید، شاہد پاشا اور قمرمنصور کو جس طرح منہ پر کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے، یہ ہماری مثبت کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، ریاستی اداروں میں بھی غلطیاں ٹھیک ہونی چاہئے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ڈی جی رینجرز سے ملاقات کے وقت میں حراست میں تھا اسے انگیجمنٹ نہیں کہا جاسکتا ہے، ڈی جی رینجرز سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی، ہمیں ویڈیو کلپس میں سے لوگوں کو شناخت کرنے کیلئے بلایا گیا تھا، لاپتہ متحدہ کارکنوں اور ماورائے عدالت قتل کے معاملات سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ڈاکٹرفاروق ستارکا مزید کہنا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد سے الطاف حسین کی تصاویر ہٹانے کا فیصلہ غلط ہے، یہ عمل حالات بہتر بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، آپ تصاویر اتار کر لوگوں کے دلوں سے الطاف حسین کی محبت ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ فیصلہ کریں گے، ایم کیو ایم کے دفاتر توڑنا نفرت کا اظہار ہے جو آئین و قانون میں کہیں نہیں ہے، اگر ایم کیو ایم کے دفاتر تجاوزات سمجھ کر ہٹائے جارہے ہیں تو پہلے کیوں نہیں ہٹائے گئے، لگتا ہے ردعمل میں ایم کیو ایم کے دفاتر گرائے جارہے ہیں، سرکاری زمین پر قائم یونٹ آفس توڑنے کا موقع ہمیں دینا چاہئے تھا، ہم خود اپنے ہاتھوں سے توڑتے، ایم کیوا یم کے دفاتر تجاوزات ہٹانے کی نیت سے نہیں توڑے گئے بلکہ اس کے پیچھے آپ کی نیت نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ایم کیو ایم پاکستان جب الطاف حسین کی تقاریر سے لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے تو پھر یہ عمل بھی ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہے، خدمت خلق فاؤنڈیشن کی جائز عمارت کو سیل کرنے کا کیا جواز ہے، ایم کیو ایم ناپسندیدہ ہوسکتی ہے لیکن ہمارا مینڈیٹ اپنی جگہ پر قائم ہے، یہ سب کچھ کر کے ان سب حقائق کی نفی کی جارہی ہے اور جو تاثر قائم ہورہا ہے وہ ہمدردی میں بدل جائے گا، آپ کے اس اقدام پر آپ کی ذات کے ردعمل، بغض ،عناد، نفرت اور تعصب کا گمان ہوسکتا ہے، کیوں اس طرح کے تاثر کو لوگوں کی نفسیات میں قائم کیا جارہا ہے، کیوں ان کے دلوں کو جیتنے کے اقدامات نہیں کیے جارہے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ مکا چوک کا نام تبدیل کرنا کس بات کا علامتی اظہار ہے، اس وقت مکا چوک کا نام تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی، مکا چوک پر علاقے کے لوگوں کے ساتھ ایک پروگرام میں اسے لیاقت علی خان مکا چوک کا نام دیا جاتا اور لیاقت علی خان کے کشمیر کے بارے میں اقوال ڈال دیئے جاتے تو یہ بہتر طریقہ ہوتا، مکا چوک کے مکے کو ایم کیو ایم کا مکا سمجھ کر یا بانی تحریک کے طریقہ سیاست سے تعبیر کر کے علامتوں پر لڑائی شروع کی جارہی ہے، سیاسی لوگوں کے ساتھ انگیجمنٹ کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لندن قیادت کی توثیق او ر انہیں اعتماد میں لیے بغیر تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ خوش آئند بات ہے لندن سے بھی ہمارے اس اقدام کی سپورٹ کی گئی، جس دن ریاست مخالف نعرے لگے اسی رات بیان کی مذمت کرنا چاہتے تھے، بانی تحریک کے کسی ایک بیان پر جسے وہ واپس بھی لے لیں تمام مہاجروں کو تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہمارے یوسی اور ٹاؤنز کے تنظیمی انچارجز کو گرفتار اور ایم پی ایز پر معمولی نوعیت کے مقدمات بنائے جارہے ہیں، آصف حسنین کل تک مطلوب نہیں تھا آج مطلوب ہوگیا، شیراز وحید پر بھونڈا کیس بنایا گیا، ایک طرف غداری کامقدمہ بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف وفاداری تبدیل نہ کرنے پر شیراز وحید کو فٹ کیا جارہا ہے، شیراز وحید کو دوسری پارٹی جوائن کرنے کا کہا جارہا ہے، اس کا مطلب ہے آپ کا مسئلہ الطاف حسین کے بیانات اور ان پر مبینہ الزامات نہیں ہیں بلکہ یہ تاثر آتا ہے کہ آپ ایم کیو ایم اور مہاجروں کو ان کے سیاسی و جمہوری حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ فاروق ستار نے کہا کہ میں الطاف بھائی کہتا ہوں تو یہ احترام ہے، انہوں نے جو بھی کیا وہ ان کا فعل ہے، ہم نے بائیس اگست کی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، اس کی مذمت اور شرمندگی کا اظہار ہے، ہم نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے، ہم نے پیغام دیا کہ بانی تحریک پہلے اپنی صحت اور ذہنی دباؤ کے مسئلہ کا حل ڈھونڈیں، بانی تحریک کے ذہنی تناؤ کا عذر ہمیں زیادہ عرصے تک بیل آؤ ٹ نہیں کرسکتا ہے، ہم نہ صرف اپنا مذاق نہیں اڑوانا چاہتے بلکہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ بانی تحریک کا مذاق اڑے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بانی تحریک بھی فیصلہ کرلیں کہ ایم کیو ایم کی پالیسی کیا ہے ، جو نعرے لگتے ہیں ، جو بابر غوری کو کہا گیا اور معافی مانگ کر پھر امریکا میں کہا گیا کیا یہ پالیسی ہے، بانی تحریک واضح طور پر ہمیں بتادیں کہ یہ اصل ایم کیوا یم ہے اور یہ پالیسی ہے تاکہ ہم فیصلہ کرلیں کہ اس ایم کیوا یم کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں، ہمارے پاس اور آپشن بھی ہے ہم پھر اس آپشن کو اختیار کریں گے۔ فاروق ستار نے کہا کہ بانی تحریک اگر فیصلوں ، بیانات اور تقریروں میں اضطراری کیفیت کے معاملہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو پوری ایم کیوا یم ان کو سپورٹ کرے گی کہ کسی بھی صوابدیدی اختیار کا استعمال پاکستان کے آئین سے تجاوز کرتے ہوئے نہ ہو۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی سوچ کے دنیا کی تاریخ میں کبھی مثبت نتائج نہیں نکلے، پاکستان میں کالعدم جماعتیں کالعدم تو ہوگئیں مگر ان پر کتنی پابندیاں ہیں، ایک رجسٹرڈ آئینی جماعت پر تو چندہ ، زکوٰة و فطرہ اور کھالیں جمع کرنے پرپابندی ہے لیکن کالعدم جماعتیں اداروں کے زیرسایہ یہ کام کرتی ہیں۔ فاروق ستار نے کہا کہ اصل مسئلہ سیاسی جمہوری عملداری اور انسانی حقوق کے احترام کا ہے، اگر ہماری باتوں کو سمجھ لیا جاتا تو جو پاکستان مخالف نعرے لگے ہیں، ایم کیو ایم نے کبھی یہ نعرہ نہیں دیا کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے، یہ نعرہ ہم پر تھوپا اور مسلط کیا گیا ہے، منزل نہیں رہنما چاہئے یہ ایک شعر کا مصرعہ ہے، کارکنان اپنے جذبات میں یہ نعرہ لگاتے اور یہ پوری نظم پڑھتے ہیں، لوگوں کو اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بابر غوری سے میرا رابطہ ہوا تھا لیکن فیصل سبزواری اور حیدر عباس رضوی میرے رابطے میں نہیں ہیں، لندن سے آنے والی پریس ریلیز لندن کی سب سے تازہ رائے ہے، ہمیں اس رائے کو موقع دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ کہنا کہ ایم کیو ایم کتنی ہوگی اس کا فیصلہ آئندہ دنوں میں ہوگا تو اس کا مطلب فیصلہ کون کررہا ہے، اگر ایم کیو ایم کا فیصلہ ریاستی ادارے اور حکومت کررہی ہے تو یہ ان کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار تو ایم کیو ایم چلانے والوں اور ووٹ دینے والوں کا ہے، چوہدری نثار نے غیر سیاسی اور غیر اصولی بات کی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کو بدلنے کی فوری ضرورت ہوئی تو بدلیں گے ،اپنی ترجیحات کو اپنی ضرورت کے مطابق طے کریں گے، وسیم اختر کی ٹریننگ ایکشن ہیرو کے طور پر ہوئی لیکن اب وہ جمالیاتی احساس رکھنے والے ہیرو ہیں، وسیم اختر کو جو نیا اسکرپٹ دیا گیا ہے وہ اب اس کو یاد رکھیں گے اور اپنے کام پر توجہ دیں گے۔
تازہ ترین