• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے وقار اور سلامتی کا تحفظ ہر سطح پر یقینی بنانے کے بارے میں سیاسی و عسکری قیادت کا عزم اور اس باب میں سرگرمی کا نظر آنا قوم کے لئے طمانیت کا باعث ہے۔ بدھ کے روز پی ایم ہائوس اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس ایک لحاظ سے منگل کے اُس اجلاس کا تسلسل کہا جاسکتا ہے جس نے پیر 22اگست کو کراچی میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعے کا جائزہ لیتے ہوئے اہم فیصلے کئے تھے۔ اسی مہینے کوئٹہ میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ میں درجنوں وکلا کی شہادت کا غم بھی ابھی تازہ ہے۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ مذکورہ واقعہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں اور حساس ادارے پوری طرح فعال نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف سطحوں پر اہم اجلاس ہوچکے ہیں اور باخبر ذرائع کے مطابق کئی ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں۔ منگل کے روز وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں قومی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ کسی کو کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بدھ کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل مزید تیز کرنے کی ہدایت کی گئی۔اس باب میں دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ نہ تو چوائس ہے نہ آپشن، یہ ہمارے وجود اور بقا کی ناگزیر ضرورت ہے۔ پی ایم ہائوس کے مذکورہ اجلاس میں اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا کہ کسی کو کراچی کا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے جو 20نکاتی حکمت عملی وضع کی گئی اس کے تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے اور مطلوب سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لئے عسکری قیادت سمیت مختلف قومی حلقے مہینوں سے توجہ مبذول کراتے رہے ہیں۔ اب وزیراعظم کی طرف سے قومی ایکشن پلان پرعملدرآمد اور حصول مقاصد میں سویلین ایجنسیوں کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے تو توقع کی جانی چاہئے کہ ایکشن پلان کے تمام نکات پر تیزی سے کام آگے بڑھے گا۔ 20نکاتی قومی ایکشن پلان کے ابتدائی نکات دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے، خصوصی سماعت کی عدالتوں کے قیام ،نیکٹا کو فعال بنانے سے متعلق ہیں۔ دیگر نکات ملک میں مسلح ملیشیائوں کی غیر موجودگی یقینی بنانے، منافرت پر مبنی تقاریر اور مواد کی روک تھام، دہشت گردی کے لئے مالی امداد کے راستے بند کرنے، کائونٹر ٹیرر ازم فورس کا قیام و تعیناتی، مذہبی بنیادوں پر غارت گری روکنے کے مؤثر اقدامات، مدرسوں کا رجسٹریشٓن اور انہیں باضابطہ بنانے کا کام، کالعدم تنظیموں کے ازسرنومنظم ہونے کی روک تھام، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کو نمایاں کرنے کی ممانعت، دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں کو ختم کرنے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دہشت گردی کیلئے استعمال کی روک تھام، پنجاب میں شدت پسندی کے حوالے سے زیرو ٹالرنس، کراچی آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے، بلوچستان میں مفاہمانہ عمل بروئے کار لانے ، فرقہ وارانہ دہشت گردی سے سختی سے نمٹنے، افغان مہاجرین کے ایشو سے نمٹنے کی پالیسی اور فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات لانے سے متعلق ہیں۔ ہماری سیاسی، مذہبی اور دیگر تنظیموں کو خود جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کن کن نکات کی زد میں آتی ہیں اور انہیں اپنے ہتھیار بند لوگوں کو غیرمسلح کرنے، منافرت آمیز تقاریر اور مواد کی اشاعت کی روک تھام کرنے، دہشت گردوں کی سہولت کاری کے انسداد سمیت ملک و قوم کے مفاد میں کیا کرنا چاہئے۔ حکومتی ادارے بھی یقیناً ان تمام باتوں سے واقف ہوں گے اور انہیں کسی تاخیرکے بغیر اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین کو مزید مؤثر بنایا جارہا ہے اور فاٹا میں اصلاحات کی سفارشات بھی تیار ہوچکی ہیں۔ ان سفارشات کو عام کرکے عوامی آرا کی روشنی میں زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے۔

.
تازہ ترین