• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میںایک بزرگ کو جانتا ہوں، ہمیشہ کے مفلس، نادار، رہنے کا ٹھکانا نہیں، کھانے کمانے کا کوئی دھندا نہیں، مگر انہوں نے گیارہ بچّے پیدا کئے، نہیں معلوم انہیں پال پوس کے کیسے بڑا کیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خوف تھا۔ ابھی ایک رات وہ پاگل ہوگئے۔ گھر میں دو بیٹیاں تھیں، آدھی رات کو اچانک اٹھ کر ان دونوں کو مارا پیٹا اور گھر سے نکل دیا۔ محلے والے آگئے، پولیس بھی آئی۔ لڑکیوں کو ان کے رشتہ داروں کے گھر پہنچایا اور بڑے میاں کو ٹھنڈا کیا۔ اب عقل حیران ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ اچھا بھلا آدمی، دیکھنے میں معقول، بیٹھے بٹھائے یک لخت اس پر پاگل پن کا دورہ پڑے، آخر اس کے پیچھے کون سے عوامل کام کرتے ہیں۔
یہ ایسا موضوع نہیں کہ ٹال دیا جائے۔ اس پر غور کیا جائے تو عجیب عجیب باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سر پھرے لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پاگل ہوتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ ان کا دماغ چلا ہوا ہے۔ دوسرے وہ جو پاگل ہوتے ہیں لیکن عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔ تیسرے وہ جو صاف لگتا ہے کہ پاگل ہیں لیکن وہ نہیں ہوتے۔ سر پھرے لوگوں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ وہ بلا کے ذہین اور غضب کے عقل مند ہوتے ہیں لیکن ان کے سر میں کہیں کوئی کیڑا رینگ رہا ہوتا ہے۔
اگلا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ آخر اس کیفیت کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ اس کے دوچار سیدھے سادے جواب ہیں۔ اوّل یہ کہ بہت زیادہ پریشانیاں، خاص طور پر ذہنی الجھنیں انسان کو پاگل کردیتی ہیں۔ وہ اپنے ماحول اور ارد گرد کے حالات کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حالت دراصل ایک طرح کا مرض ہوتی ہے جو کبھی کبھی خاندان میں یا نسل در نسل چلا کرتی ہے۔ آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ بعض گھرانوں میں خودکشی کا رجحان ہوتا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے برس خبر ملتی ہے کہ خاندان کے کسی فرد نے زہر کھا لیا، خود کو گولی مارلی یا دریامیں کود کر جان دے دی۔ مرض ہونے کی وجہ سے یہ کیفیت جسمانی سمجھی جاتی ہے۔ یعنی بہت زیادہ کھانے والے کو، یا مٹاپے کے شکار شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے دماغ پر چربی چڑھ گئی ہے۔ دیوانگی کی ایک عجیب قسم کا احوال سنئے۔ جو لوگ بہت زیادہ، بہت ہی زیادہ ذہین ہوتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی قسم کے خبط کا شکار ہو جاتے ہیں۔کتنے ہی بڑے شاعر، ادیب، مصور، مفکّر اور فلسفی پاگل قرار پائے۔ایک آخری قسم وہ ہے جس میں انسان کو ذرا زیادہ ہی دولت یا اقتدار مل جائے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے۔ خبط و دیوانگی کے اس باب میں تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
ابھی ہم مثالوں کے میدان میں اتریں گے اور حیران ہوں گے کہ کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہو گئے۔ اس سلسلے میں ہماری شاعری میری مدد کے لئے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ ہمارے شاعر کا تو یہ عالم ہے کہ دیوانہ ہونے کے لئے اسے ایک ذرا سا بہانہ چاہئے۔ اور اگر کہیں ایسے میں موسمِ گُل آجائے تو اس غریب کو کبھی کبھی تو زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔ یہ تو آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ پھر فصلِ بہار آئی زنجیر نظر آئی۔ کسی گمنام شاعر کا یہ شعر مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
قیس کا نام نہ لو، ذکر جنوں جانے دو
دیکھ لینا مجھے تم، موسم گُل آنے دو
اور ہمارے میر صاحب کو تو دیوانہ پن ایسا بھایا کہ عقل بحال ہوئی تو پچھتائے
خرد مندی ہوئی زنجیر ورنہ
گزرتی خوب تھی دیوانہ پن میں
فسادِ خون نے ہمارے بزرگوں کو بہت ستایا۔ جسے دیکھئے وہ فصد کھلوا رہا ہے، بدن سے فاسد خون نکلوا رہا ہے۔ کہیںجونکیں لگائی جارہی ہیں اور کہیں سینگ کے راستے بدن کا فالتو خون کھینچا جارہا ہے۔ یہ علاج نہ ہو تو اچھا بھلا انسان دیوانہ ہو جایا کرتا تھا۔ اب تو خیر بدن میں بننے کے لئے بیچارے خون کو ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں۔
اس پر یاد آیا کہ مغل دور میں، شاید شاہ جہاں کے زمانے میں ایک فرانسیسی سیاح گھومتا گھامتا ہندوستان پہنچ گیا۔اس کی دربار تک رسائی ہوگئی۔ خدا جانے کیسے اس نے اپنے معالج ہونے کی دھاک بٹھا دی۔ ادھر زنان خانے میں نازک اندام شہزادیاں آئے دن طرح طرح کے عارضوں میں مبتلا ہوتی رہتی تھیں، ہمارے سفید فام جرّا ح کو وہاں تک بھی رسائی دے دی گئی۔ وہ دو دن میں سمجھ گیا کہ بیگمات اور شاہ زادیاں شاہی مطبخ سے آنے والا بے مثال کھانا کھاتی ہیں اور دن بھر ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتیں اور اس سبب طرح طرح کے روگ لگتے ہیں۔ فرانسیسی معالج نے اس کا آسان علاج دریافت کرلیا۔ وہ ان سب کی فصدکھولنے لگا۔طبیعتیں بحال ہوئیں تو سفید فام جرّاح کی دھوم مچ گئی۔ فسادِ خون کا اس زمانے میں یہی ایک علاج تھا۔دماغ پر بن آئے تو لوگ سینگی والی کنجری کو بلا کر بدن کا فالتو خون نکلواتے تھے۔ پتہ نہیں اس میں سینگی کا کتنا کمال تھا اور کنجری کا کتنا۔ میرے بچپن تک سینگی والیاں گلی کوچوں کے چکر لگایا کرتی تھیں۔
فتور عقل کی مثالیں دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کیسے بڑے بڑے اور نامور لوگ دیوانے ہو گئے۔ ہمارے مولانا محمدحسین آزاد کی داستان دکھ دیتی ہے۔ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ وہ پڑھنے لکھنے کے کاموں میں مولانا کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ اس کی ناگہانی وفات کا آزاد کے دل و دماغ پر اتنا اثر ہوا کہ ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ہمارے بڑے شاعروں میں مجاز لکھنوی کا نام نمایا ں ہے جنہیں کئی بار پاگل خانے جانا پڑا۔اردو کے بہت بڑے شاعر یگانہ چنگیزی غزل کے میدان میں یگانہ تھے لیکن جب کبھی دماغ پر بن آتی تو آسمانی صحیفوں سے لے کے دیوانِ غالب تک سبھی ان کی زد میں ہوتے تھے۔ آخر میں لوگوں نے منہ کالا کرکے اور گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالا لیکن ان جیسا شعر کوئی نہ کہہ سکا۔فراق گورکھ پوری کو اردو شاعری میں استاد کا درجہ حاصل ہے۔ بلا کے ذہین تھے اور بہت بڑے اسکالر تھے لیکن دماغ کا یہ عالم تھا کہ لوگوں کے سامنے عریاں ہوجاتے تھے۔ ایک اور شاعر میرا جی کے دماغ پر بن آئی تھی۔ انہیں تو عشق نے مجنوں کر دیا تھا۔
ڈھونڈنے پر آئیں تو ایسی ان گنت مثالیں مل جائیں۔ زیادہ دولت کا بھی یہ اصول ہے کہ تجوری سے زیادہ سر میں سما جاتی ہے اور دنیا کے مالدار ترین لوگوں کی کنجوسی اور خسّت کے کتنے ہی قصے مشہور ہیںجنہیں باآسانی دماغ کی خرابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب رہ گیا اقتدار اور طاقت کا دیوانہ پن تو اس کی مثالیں عہد قدیم سے زمانہ جدید تک اتنی ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ تفصیل میں جانے کا مقام نہیں۔ روم کے شہنشاہ نیرو کو کون نہیں جانتا، اس نے اپنی ماں کو قتل کرایا، مسیحیوں کو زندہ جلایا،خود کو خدا قرار دیا اور شہر روم کو آگ لگوائی اور خود بیٹھا بانسری بجاتا رہا۔ فرانس کے شاہ چارلس ششم اور انگلستان کے شاہ ہنری ششم دیوانے ہو گئے تھے۔ ہماری ملکہ وکٹوریہ، جن کی سوانح میں نے لکھی ہے، ہمارے ہی منشی عبدالکریم کی جانب اتنی زیادہ ملتفت تھیں کہ شاہی معالج نے ولی عہد شاہزادے سے کہا کہ تم کہوتو تمہاری ماں کو پاگل قرار دے دوں تاکہ انہیں تخت سے اتاردیا جائے۔ اس پر یاد آیا کہ روم کے شاہ جسٹن اتنے دیوانے ہوگئے کہ انہیں تخت سمیت دھکیل کر دربار سے نکالا گیا، اس وقت راستے بھر درباریو ں کو اپنے دانتوں سے کاٹتے گئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ دیوانوں کی باتوں پر لوگ ہنستے ہیں۔ میں سوچتا ہوں آج کا یہ مقالہ میں نے کیوں لکھا۔ نہ موسم ہے، نہ سبب، نہ جواز۔ کہیں یہ بھی کوئی دیوانگی تو نہیں؟


.
تازہ ترین