• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعید قریشی صاحب بظاہر ایک معصوم شخص نظر آتے ہیں جنہوں نے ساری عمر فنانس میں گزار دی، ہنسی مذاق ان کا وطیرہ نہیں اور سرکاری بابو کی طرح ریٹائر ہوکر، ان افسروں میں شامل ہونے کو قلم اٹھایا ہے جن میں الطاف گوہر، روئیداد خان، حسن ظہیر جیسی توپ شخصیات ہیں، لگتا ہے ان کی نوکری کے زمانے میں کچھ غلط نہیں ہوا اور اب اندھیر نگری چوپٹ راج ہوگیا ہے۔ سعید قریشی صاحب نے تفصیل سے لکھا ہے۔
پاکستان کی ابتدائی سیاست کے دنوں میں تاش کے پتوں کی طرح صبح ایک وزیر اعظم ہوتا تھا تو شام کو دوسرا، آخر کو وہی ہوا جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ آمر قابض ہوجاتا ہے، دودھ دہی کی دکانوں پہ جالیاں لگنے لگتی ہیں۔ معصوم قوم یہی دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے۔ ایک آمر کے بعد دوسرا آمر زمام حکومت سنبھالنے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ بھٹو صاحب کے پیچھے خلقت دیکھ کر، ہنسی میں اڑا دیتا ہے مگر جب ملک کے دولخت ہونے کا قصہ سچ ثابت ہونے لگتا ہے تو بھٹو صاحب کے کردار کو داغدار کرنے کیلئے سول مارشل لا کی سیاست کھیلتا ہے۔ شیخ مجیب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناکر بقول منیر نیازی دشمنوں کے درمیان شام گزار رہا تھا اور وہ بھی تھوڑا عرصہ رہا۔
بھٹو صاحب جب 93ہزار فوج اور سول افسروں کو ڈھائی سال بعد شملہ معاہدے کے تحت واپس لائے تو پیپلز پارٹی کے سارے داغ دھل گئے نیا آئین بھی بن گیا۔ تھوڑے سال بعد ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی میں وہ رن پڑا کہ ضیاء الحق کی سربراہی میں مارشل لاء لگا کر تیرہ سال تک لوگوں کو کوڑے لگے، سنسر شپ نافذ ہوئی۔ قرآنی آیتیں بھی سنسر ہوتی تھیں۔ ادھر موقع پاکر ضیاء نے بھٹو کو آدھی رات کو پھانسی دی۔ روسی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کیلئے ہم نے امریکیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ روسی فوجوں کے نکلتے ہی ہم سے آنکھیں پھیر لی گئیں اور ہم دہشت گرد قرار دئیے گئے۔ جماعت اسلامی سے لیکر ساری 21مذہبی جماعتیں شیر ہوگئیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی جسے صرف پاکستان اور امریکہ نے تسلیم کیا۔ امریکیوں نے مولوی فضل اللہ کی سربراہی میں پہلا پتہ سوات میں کھیلا، عورتوں نے اسلام کے نفاذ کی خبر سنی تو اپنے سارے زیورات دیدئیے۔ پہلے سوات کے 400اسکول مٹا دئیے گئے۔ یہیں ملالہ کی ا سکول بس پر حملہ کیا گیا۔ اب یہ فرقہ وارانہ لڑائی کے نام پر بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کے سینکڑوں لوگ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد، شہید کر دئیے گئے۔ توہین کا کہہ کر گوجرہ کا واقعہ ہوا، 2005ء کے زلزلے کے باعث ان کے کرتوتوں پر پردے پڑ گئے۔ ساری دنیا کی مدد آئی۔ یہ بھی دیکھا سیکورٹی فورسز کے پرانے تنبوں کی جگہ نئے آئے تنبو اور کمبل اندر رکھے گئے۔ بیچارے بے گھر لوگوں کے سروں پر پرانے کمبل آگئے۔ کشمیر میں بھی یہی ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ زلزلہ زدگان کیلئے آئے ہوئے گھی کے ڈبے یوٹیلیٹی اسٹورز پر فروخت ہورہے تھے۔ ترکی کی حکومت نے، آج کی چینی حکومت کی طرح پاکستان حکومت پر اعتبار نہیں کیا۔ اپنی لیبر لیکر آئے، لڑکیوں کی یونیورسٹی بنائی اور پورا سیکرٹریٹ بنایا۔ ایسے بھی دن آئے کہ وہی شدت پسند ، آستین کے سانپ بن کر جی ایچ کیو اور سینئر فوجی افسران پہ حملے کرنے لگے، آخر کو افسران کو وردی میں شہر جانے سے منع کیا گیا۔ سعید قریشی صاحب نے تفصیلاً سربراہ مملکت سے لیکر سینئر افسران پر 2009ء میں کئے گئے حملوں کی تفصیل دی ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ سول سروس میں بہت سے افسران کو تو نکالا گیا مگر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق جن سینئر فوجی سربراہوں کو کورٹ مارشل کیلئے کہا گیا تھا۔ اول تو وہ رپورٹ ہی باہر نہ آئی۔ ہندوستان کے اخباروں نے شائع کی تو ہم نے بھی ہمت کی۔ سعید قریشی صاحب نے حکومتی پالیسیوں کی ناکامیوں کا وضاحت سے ذکر کیا ہے کہ بجلی کی فراہمی کے معاملات تعلیم اور صحت کے شعبوں میں 3فیصد سے زائد بجٹ نہ رکھا جاتا۔ حکومتوں کے وعدے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد کئے گئے، ان کی ناکامیوں کی تفصیل امیروں اور سیاستدانوں کے قرضوں کی معافی کی صورت میں تو کہیں نندی پور پروجیکٹ کی ناکامی کی صورت میں نظر آئے۔ لال مسجد کے واقعات شدت پسندوں اور حکومت کو آمنے سامنے لے آئے۔ ساری دنیا میں ایسے اقدامات کو حکومت کی ناکامی کہا گیا۔ چونکہ جنوبی پنجاب سے لیکر مرید کے تک، القاعدہ کی مدد کرنے اور علی الاعلان وکیلوں، دانشوروں اور صحافیوں کو جان سے مار دینے کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی حرکتوں سے محفوظ نہ رہنے دیا، امریکہ بھی آنکھیں پھیر کر کھڑا ہوگیا۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی 6کروڑ سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ جسمانی زیادتیاں غیرت کے نام پر قتل اور 5سال کی بچی کی 30سالہ شخص سے شادی، خاندان کے جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے جاری ہیں۔ ویمن کمیشن بنایا گیا۔ 5ماہ گزر گئے۔ اس کی چیئرپرسن نہیں رکھی گئی ہے۔ سعید قریشی صاحب سے اتنی خوبصورت تحریر پڑھ کر ایک سوال کرنا چاہتی ہوں۔ اتنی نابکار حکومتوں کے دور میں کیا کبھی آپ کے ضمیر نے جھنجھوڑا کہ استعفیٰ دو اور گھر بیٹھو!


.
تازہ ترین