• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا لگتا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت نے چھوٹے صوبوں کے سارے آئینی اختیارات کو دفن کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے‘ حالانکہ پاکستان ایک وفاق ہے‘ اس بات کا فیصلہ لاہور میں مسلم لیگ کے عظیم اجتماع میں جو 1940ء میں منعقد ہوا جس میں قرارداد منظور کی گئی کہ ہندوستان سے الگ ہوکر مسلمانوں کی اکثریت والی ریاستوں پر مشتمل جو ملک وجود میں آئے گا وہ حقیقی وفاق ہوگا مگر اب تک اس تاریخی قرارداد کا جو مذاق بنایا گیا اس سے ہم سب آگاہ ہیں‘جنرل مشرف کا دور ختم ہونے کے بعد خدا خدا کرکے ایک بار پھر سویلین دور شروع ہوا اور ایک منتخب حکومت وجود میں آئی‘ اس دور میں ایک کام بہت اچھا ہوا کہ پارلیمنٹ سے 18 ویں آئینی ترمیم منظور کرائی گئی جس کے ذریعے اکثر شعبوں میں پہلی بار صوبوں کو کسی حد تک حقیقی صوبائی خود مختاری دی گئی اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے آمرانہ اختیارات استعمال کرکے اسمبلیوں کا خاتمہ کرنے کے جو اختیارات سنبھال لئے تھے وہ ختم کیے گئے‘ آئین کی اسی چھتری کے تحت ملک کا کاروبار چل رہا تھا مگر پتہ نہیں کیوں پی ایم ایل (ن) کی موجودہ منتخب حکومت نے وفاق کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا‘ اب تک پتہ نہیں آئین کی کتنی شقوں کو ’’سائیڈ لائن‘‘ کرکے مرکز نے یہ سارے اختیارات خود سنبھال لئے‘ اب تو آئین کی مزید شقوں پر تابڑ توڑ حملوں میں اور تیزی آگئی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ اب اس حکومت نے آئین پر بتدریج عمل نہ کرنے کا حلف اٹھا لیا ہے‘ یہاں تک کہ اس بات کا خود سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینا پڑا‘ ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم اگر کابینہ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ غیر آئینی ہوگا‘ میرا خیال ہے کہ اتنا ہی غیر آئینی قدم وہ بھی ہوگا جو وزیر اعظم کی ’’باقاعدہ‘‘ منظوری کے بغیر کابینہ یا چند وزیر انفرادی طور پر اٹھاتے ہیں اس کی مثال وزیراعظم کالندن میں آپریشن کے دوران ٹیلی فون سے کابینہ کے اس اجلاس کی صدارت کا ڈرامہ کیا گیا جس میں نئے سال کا بجٹ منظو رکیا گیا‘ کیا یہ بجٹ آئین کے مطابق منظور کیا گیا‘ اسی دوران سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی جن کا 18 ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ تیار کرنے اور منظور کرانے میں کلیدی کردار تھا‘ نے حال ہی میں بار بار خبردار کرنا شروع کردیا ہے کہ وفاق کے اختیارات کو نہ چھیڑا جائے اور 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ ان سے نہ چھینے جائیں ورنہ اس کے ملک کے لئے انتہائی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر کوئی ایشو مشترکہ پارلیمنٹ (سینیٹ اور قومی اسمبلی) کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے تو اس ایشو پر سینیٹ کے سارے ممبران کی ایک رائے ہو مگر قومی اسمبلی چاہے تو سادہ اکثریت کے ساتھ بھی سینیٹ کی متفقہ رائے کے برعکس اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرسکتی ہے جو کہ نہ فقط سینیٹ کی توہین ہے مگر چھوٹے صوبوں کے حقوق کو پامال کرنے کے برابر ہے لہذا انہوں نے تجویز دی ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے یہ طے کیا جائے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ اور اسمبلی کے ووٹ مساوی ہوں‘ میرے خیال میں اگر ہمارے حکمران اور مختلف سیاسی جماعتیں پاکستان کو ایک وفاق بنانا چاہتی ہیں تو آئین میں یہ ترمیم کرنی پڑے گی بلکہ سندھ کے آئینی ماہرین کی تو رائے ہےکہ قومی اسمبلی میں مختلف صوبوں کے لئے مختص نشستیں مساوی ہونی چاہئیں‘ آخر یہ کون سا وفاق ہے جس میں قومی اسمبلی میں ایک صوبے کی نشستیں باقی سارے صوبوں کی جملہ نشستوں سے بھی زیادہ ہوں‘ وقت آگیا ہے کہ چھوٹے صوبے آپس میں مل کر اس ایشو پر متفقہ موقف اختیار کریں‘ خاص طور پر میاں رضا ربانی نے ملک میں حقیقی وفاق بنانے کے لئے کئی اہم تجاویز دی ہیں‘ فی الحال میں چاہتا ہوں کہ مرکز نے صوبوں کے اختیارات پر جو تازہ حملے کیے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ’’نوٹیفکیشن‘‘ ہے جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 68 کے سب سیکشن 4کے تحت جاری کیا گیا‘ اس نوٹیفکیشن کے تحت مرکزی حکومت کے ایک بڑے ادارےایف بی آر نے سندھ کے تین بڑے شہروں کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر میں عمارتوں کی خرید و فروخت کی رجسٹریشن کے دوران فیس وغیرہ کی مقرری وغیرہ کے اختیارات خود سنبھال لئے ہیں‘اس نوٹیفکیشن کی کیا آئینی و قانونی حیثیت ہے۔ مجھے امید ہے کہ چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ کے سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین اس نوٹیفکیشن کو چیلنج کریں گے‘ اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ یہ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے مرکز کے حکام نے سندھ کے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں گفت و شنید کی تھی اور سندھ نے ایسا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی مخالفت کی تھی مگر بعد میں مرکزی حکومت نے سندھ کے موقف کو روندتے ہوئے یک طرفہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا ‘ ہمیں سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سے امید ہے کہ وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے اور اس ایشو کو متعلقہ اداروں میں اٹھائیں گے‘ اس نوٹیفکیشن کے اجراکے ساتھ اطلاعات کے مطابق ان تینوں شہروں میں پلاٹوں اور تعمیر شدہ عمارتوں کی خرید و فروخت بند ہوگئی جس کی وجہ سے عام آدمی جو اپنے پلاٹ فروخت کرنا چاہتے ہیں یا خریدنا چاہتے ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ گئے ہیں‘ اس نوٹیفکیشن کی تفصیلات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نوٹیفکیشن سندھ کے خلاف کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے‘ ایک تو یہ کہ مرکز کو یہ اختیارات نہیں‘ دوسری بات یہ کہ یہ نوٹیفکیشن فقط سندھ کے لئے کیوں جاری کیا گیا‘ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد کے لئے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق جہاں ڈیفنس سوسائٹی کو اے کیٹگری میں رکھا گیا ہے وہاں ہالاناکہ کا پسماندہ اور نیم شہری اور نیم دیہی علاقے سمیت قاسم آباد جو ابھی نیم پسماندہ ہے اور خاص طور پر اس کے ایک پسماندہ ترین علاقے سحرش نگر کو بھی اے کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سحرش نگر وہ علاقہ ہے جہاں جام صادق کی حکومت نے شہری فسادات کے متاثرین کو مفت پلاٹ الاٹ کیے تھے جن میں سے اکثر پر الاٹیز کوئی مکان وغیرہ بھی نہیں بناسکے‘ اس نوٹیفکیشن کے مطابق اے کیٹگری میں آنے والے پلاٹ فی اسکوائر یارڈ 25,000روپے کے حساب سے فروخت کیے جائیں گے یعنی اس حساب سے 100 اسکوائر یارڈ کا پلاٹ کم سے کم 25لاکھ روپے میں فروخت ہوگا اس کے علاوہ فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کو بھاری فیس وغیرہ بھی ادا کرنا پڑے گی‘ اب اتنا مہنگا پلاٹ کون خریدے گا‘ ایسی ہی قیمتیں تعمیر شدہ رہائشی اور تجارتی عمارتوں کے لئے بھی مقرر کی گئی ہیں۔ اسی دوران ارسا نے سندھ کے لئے تربیلا ڈیم سے جاری کیے جانے والے پانی میں خاص کٹوتی کردی ہے جب یہ ایشو ارساکے اجلاس میں اٹھایا گیا تو سندھ اور بلوچستان نے کٹوتی کے خلاف ووٹ دیا جبکہ پنجاب اور کے پی نے کٹوتی کے حق میں ووٹ دیا‘ یہ ووٹ برابر تھے مگر ارسا کے چیئرمین جن کا تعلق پنجاب سے ہے نے کٹوتی کے حق میں ووٹ دیا‘ اس طرح ارسا کے مطابق اکثریتی ووٹ کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ ارسا کی شق 91ء کے پانی کے معاہدے میں اس وجہ سے شامل کی گئی تھی کہ اس سلسلے میں سندھ کو کافی خدشات تھے‘ اس معاہدے کے سلسلے میں یہ فیصلہ کیا جانے والا تھا کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم واپڈا کرے گا‘ مگر سندھ نے تجویز دی کہ ارسا کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا جائے جو اس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کرے گا‘ سندھ کی تجویز کے مطابق طے کیا گیا کہ ارسا میں ہر صوبے کا ممبر ہوگا‘ اس وقت سندھ کا یہ تصور تھا کہ مرکز کے نمائندے کو ووٹ کا حق نہیں ہوگا مگر مسلسل وفاق کا نمائندہ پنجاب سے مقرر کیا جاتا رہا اور وہ ووٹ بھی دیتا رہا‘ سندھ کی رائے ہے کہ اگر وفاق کے نمائندے کو بھی ووٹ کا حق ہے تو پھر وفاق کا نمائندہ Rotation پر ہر صوبے سے مقرر کیا جائے۔


.
تازہ ترین