• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھلا روکنے سے کوئی رُکا ہے آج تک، نہ اچھا بُرا وقت، نہ جان سے پیارے دوست، نہ دِل میں بسنے والے، نہ رشتوں کی ڈور میں اُلجھے ناتے اور نہ عمرِ عزیز، تاریخ، ادب، شاعری، مصوری اور موسیقی جانے والوں کے ہجر و وصال کی داستانیں ہی تو ہیں جن میں روح کے درد کو تصویر کیا گیا ہے، دل کی خواہشوں کو مرادوں اور آہوں کی دھنوں میں پھونکا گیا ہے اور آنسوؤں سے بھیگے لفظ رقم کئے گئے ہیں۔ انسان کو زندگی کرنا سکھایا گیا ہے۔ سو وہ جیون سے بھرے راستے تلاشتا، پناہ گاہیں ڈھونڈتا، خود کو خود سے اوجھل کرتا اور کبھی دنیا سے چُھپتا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ پُل صِراطِ حیات پر چلتے چلتے وہ وقت کی آنکھ سے کچھ سنہری لمحے، دِل کو نہال کر جانے والے لہجے، سوال و جواب کرتی آنکھیں، معصوم بے لوث مسکراہٹیں اور خوشگوار منظر چُرا کر ہمیشہ کے لئے یاد داشت کی گٹھڑی میں محفوظ ضرور کر لیتا ہے۔ خواہش اور خواب کی ڈور سے بندھی زندگی کی جھولی سنہری یادوں سے بھری ہو تو کٹھن سفر سہل ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب جی چاہے اُن میں جا کر بس جاتا ہے۔ یادیں تو وہ گیسٹ ہاؤس ہیں جہاں لمبے سفر کا مسافر سستا کر تازہ دم ہو جاتا ہے۔ ہم وقت کو نہیں روک سکتے لیکن یادوں میں قید ضرور کر سکتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کچھ ایسے سنہری موڑ آتے ہیں جب حیات و کائنات تھم جاتی ہے۔ محسوسات کی دنیا تخیرات جہان میں گم ہو کر کسی مقام پر ٹھہر جاتی ہے تو وقت کا دل بھی دھڑکنا بھول جاتا ہے۔ ایسے لمحوں میں منظر اور انسان ایک دوسرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بالکل ایسے تجربے سے میری آنکھیں، دل اور روح بھی گزرے ہیں۔ محسوسات کا سحر صرف کسی شے سے ہم کلامی سے ممکن ہوتا ہے کیونکہ جب جب میں نے وینس شہر کے حوالے سے ڈاکو مینٹریز دیکھیں، ہمیشہ ایک عجیب دنیا کو دیکھنے کی خواہش دل میں بیدار ہوئی۔ پھر جب واقعتاََ اس شہر کے ظاہری و باطنی کو آنکھوں سے دیدار کرنے کا موقع مِلا تو جس کیفیت سے دِل و جاں گزرے وہ بیان کرنے کی قلم میں سکت نہیں۔ سمندر میں تیرتے گھر، دفاتر، عجائب خانے، پورا شہر ہی عجائب گھر ہے، تاریخی مقامات کی بات کریں تو الف سے ے تک رمز اور اسرارے بھری کتاب ہے۔ جس کے ہر صفحے پر ایک الف لیلوی داستان ہے۔ دنیا کے ہر ملک، مذہب اور رنگ و نسل کے لوگ خود کو اُس منظر میں تحلیل کر کے صدیوں پرانی تاریخ سے واقفیت حاصل کر رہے تھے۔ قیامت کی دھوپ اور حبس اشتیاق اور جستجو سے بھری آنکھوں کی راہ میں رکاوٹ حائل نہ کر سکے۔ کچھ تصویریں کیمروں میں محفوظ ہوئیں، کچھ دِل میں اور کچھ منظر روح میں اُتر گئے کئی بار تو ایسا محسوس ہوا کہ متحرک وجود صورت میں ڈھل کر اُس کینوس کا حصہ بن گیا ہے۔ سمندر میں کشتیاں اور چھوٹے بڑے جہاز اٹکھیلیاں کرتے ہیں تو درو دیوار سے ٹکراتا پانی ماضی کا آئینہ بن جاتا ہے جِس میں سے بہت سے قد آور گزرتے اور محو ہوتے جاتے ہیں۔ جانے کیا ہے زندگی ایک تفریحی ٹور، ایک میلہ، ایک مشقت سے بھرا سفر، ایک سیریل جِس کی کئی قسطیں ہیں مگر وہ ختم ہو جاتا ہے مگر نئے ناموں، حلیوں اور دانش کے منظر ناموں میں خود کو فٹ کرتی سانس لیتی زندگی چلتی رہتی ہے۔
Levgno سرحد پر رکھا ایک خوبصورت شہر ہے۔ اسے وہاں منصوبے کے تحت بسایا گیا ہے لوگوں کو اس علاقے کی خوبصورتی سے متعارف کروانے اور اس علاقے کی خوشحالی کے لئے اسے ٹیکس فری شہر قرار دیا گیا اعلیٰ برینڈ کی اشیاء نصف قیمت پر فروخت ہوتی ہیں لیکن حدِّ خریداری متعین ہے۔ اس کے بعد سوئٹزر لینڈ ہے، جس کے نام کے ساتھ ہی ایک حسین و جمیل سر زمین تخیل میں آ بستی ہے۔ یہ ملک اتنا ہی حسین ہے جتنا تحریروں میں بیان کیا گیا۔ سر سبز پہاڑوں، بلند چوٹیوں، آبشاروں اور جھیلوں کے پس منظر میں سجے گھر اور اِنسان کسی ماورائی دنیا کا حِصّہ معلوم ہوتے تھے کیونکہ یہاں ٹیکس کی خاصی چھوٹ ہے اس لئے سرمایہ کاروں کا مرکز ہے حالانکہ اسے دِل والوں کا مرکز ہونا چاہئے۔ جو یہاں صرف محبت کا پیمان باندھیں، زرو دینار کے معاملات میں نہ الجھیں۔ اتنے خوبصورت ملک میں گھومتے ہوئے میری آنکھیں اُس بنک کو تلاشتی رہیں جہاں میرے وطن کے بہت سے خوشحالی کے سِکّے پڑے ہیں۔ روزانہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ان خوبصورت شہروں کا دیدار کرتے ہیں۔ سیاحوں کو ہر ممکن سہولتوں کا نظام قابلِ تعریف ہے اور اس پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔ سڑکوں، ہوٹلوں، تفریحی و تاریخی مقامات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ سیاحت ایک صنعت ہے جو آمدنی کے ساتھ ساتھ ملک کی نیک نام شہرت کا بھی باعث ہے۔ یہ خوبصورتی بہت سی بد صورتیوں کو آنکھوں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ ان حسین مناظر میں کھویا میرا دل اپنے ملک کے دلفریب حُسن سے ان کا مقابلہ کرتا رہا جو کسی طرح بھی اُن سے کم نہیں مگر ٹھیکیداری نظامِ معاشرت اور سیاست نے ان پر غفلت کی ایسی چادر ڈال رکھی ہے کہ ایک دنیا اُن سے متعارف نہیں۔ وادیٔ ڈیسوکی جیسے مقامات پر ابھی تک کوئی تعمیرات کا کام نہیں ہوا حتی کہ وہاں تک سڑک بھی پختہ نہیں بنائی جاسکی۔
تاریخی مقامات سے بھرے ہمارے شہر صدیوں کی داستانیں سنانا چاہتے ہیں۔ ہماری دلفریب وادیاں، سمندر، جھیلیں، دریا اور پہاڑ دُنیا سے ہم کلامی کرنا چاہتے ہیں مگرہمارے پاس وقت نہیں اُس رابطہ پُل کے تعمیر کرنے کا جو دُنیا کو ہماری اصل تہذیب، حُسن اور تاریخ سے روشناس کراسکے۔ ایک اندھی گلی میں سائے کا تعاقب کرتے ہوئے ہم اپنا اصل فراموش کرتے جا رہے ہیں جو ہماری منفرد پہچان ہے۔ اِنسانوں کے ہجوم میں قوموں کی منفرد پہچان ہی ان کا تعارف ہوتی ہے۔ یورپ اپنی قومی زبانوں کا احترام جانتا ہے۔ ہر ملک اپنی زبان میں بات کرنا قابلِ فخر سمجھتا ہے۔ بڑے بڑے اسٹوروں، ہوٹلوں، تفریحی مقامات پر ان کی زبان بولنی پڑتی ہے یا بے بسی سے میزبان کے ترجمے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں کاروبار متاثر ہونے کا اندیشہ نہیں، لوگ پھر بھی وہاں جاتے ہیں اور اِشاروں کنایوں میں خریدو فروخت کرتے ہیں۔ چوہدری محمد اجمل خان اور ظاہرہ اجمل کے لئے بہت سی دُعائیں اور محبتیں جنکی بے پناہ محبت سے یہ خوبصورت سفر ممکن ہوا۔ چوہدری محمد اجمل خان اٹلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر ہے اور پورے یورپ میں میاں نواز شریف کا سب سے بڑا جلسہ کروانے کا ریکارڈ رکھنے پر فخر کرتا ہے۔ اجمل خان اور اُس جیسے ہزاروں پاکستانی اپنے وطن لوٹ آنا چاہتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنی تہذیب میں پَھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سب کی نظریں جمہوری حکومت کے پُر امید فیصلوں کی منظر ہیں۔ سو یہ تمام سفر بقول پروین شاکر خوشی اور ملال کی مِلی جُلی کیفیت سے لبریز تھا۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی


.
تازہ ترین