• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکل و صورت سے اسمارٹ ،مضبوط جسم اور بازوئوں کے مسل اس کے سخت جان ہونے کی گواہی دےرہےتھے ،وہ تیز تیز چلتا سڑک کراس کرتا ، اچھلتا کودتا بسوں میں سوارہوتا نظر آتا تھا لیکن وہ جہاں بھی جاتا وہاں کھڑے بڑے بوڑھوں، جوانوں، عورتوں، بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا، وہ بھیک مانگتا ۔شکل سے وہ بھکاری نہیں معلوم ہوتا تھا ،بھیک مانگتے ہوئےدیکھ کر ہر کوئی اس کو سر سے پاؤں تک دیکھتا، اس کی خوبصورتی ،ا سمارٹنس اور مسل والی باڈی کو دیکھتا تو ان کے چہروں کے تاثرات بدلنا شروع ہوجاتے ، لیکن اس سے پہلے کہ چہرےکے یہ تاثرات نفرت میںبدلتے، لوگ اسے برا بھلا کہتے یا بھڑ ک کر کہتے کہ تمہیں شرم نہیں آتی ،ہٹے کٹے ہوکر اس ڈھٹائی سے بھیک مانگتے ہو تمہیں فوراً پولیس کے حوالے کردیتے ہیں لیکن اس کی اگلی ہی بات پر لوگ اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے یا اس کا یوں بھیک مانگنے کا برا منائے بغیر آگے بڑھ جاتے ، میکسیکو سے تعلق رکھنے والا یہ 22سالہ نوجوان سارا دن یونہی اپنے ملک کی گلیوں ، شاہراہوں، پبلک پارکس ، بازاروں، مارکیٹوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیک مانگتااور شام کہ یہ اپنی فٹنس کےلیے سخت ریاضت کرتا ،مانگے ہوئے پیسوں سے اچھی خوراک کھاتا اوریوں ہی وہ اپنے شب و روزگزارتا رہا، میکسیکو کے لوگ اسے حسب توفیق بھیک دیتے رہے ، وقت گزرتا گیا لیکن ہنستے مسکراتے چہرےسے اور اچھلتے کودتےبھیک مانگنے والے اس نوجوان کی آنکھوں میں آج آنسو تھے ، وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا یہ نوجوان اپنے ملک کے جھنڈے کو بلند ہوتےہوئے دیکھ رہا تھا اس کے گلے میں ریو اولمپکس کا میڈل جھول رہا تھا وہ کبھی میڈل کو دیکھتا تو کبھی اپنے بلند ہوتےجھنڈے کو وہ میکسیکو کا ایک غریب باکسر تھا، حالات اور ایک حادثے نے اس کی غربت میں اضافہ کردیا تھا، لیکن وہ ریواولمپکس گیمز میں نہ صرف بطور باکسر شرکت کرنا چاہتا تھا بلکہ اپنے ملک کےلیےمیڈل بھی حاصل کرنا چاہتا تھا ، حکومت نے ایک خاص حد تک اس کی مدد کرنےکے اس سے زیادہ انکار کردیا تھا، لیکن میکسیکو کا یہ 22سالہ باکسر جس کا نام میسائل روڈرگوئز(MISAEL RODRIGUIEZ)ہے اپنے عزم میں پکا تھا اس کو اپنی صلاحیتوں پر پورا یقین تھا اور وہ اپنے اس یقین کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا تھا، اس نے بھیک مانگ مانگ کر اپنی بھرپور ٹریننگ کی اور پھر برازیل میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتےہوئے میڈل حاصل کیا ، کسی بھی کھلاڑی کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ اولمپکس گیمز میں شرکت کرے اور کسی بھی کھلاڑی کا یہ سنہرا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کیلئے میڈل حاصل کرے، وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہو اور پھر اس کے ملک کا جھنڈا لہرایا جائے اور میسائل اپنے اس سنہرے خواب کو حقیقت میں بد لنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
پاکستان 20کروڑ لوگوں کی آبادی کا ملک ہے جس کی 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، بھرپور قسم کے نہ سہی لیکن پھربھی کھیلوں کے فروغ کےلیے وسائل موجود ہیں، بے پناہ ٹیلنٹ بھی موجود ہے ، لیکن کمی ہے تو صرف اچھے مینجرز کی ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی موجودہ باڈی جس کو لیفٹیننٹ جنرل(ر) عارف حسین لیڈ کرتے ہیں اب اپنے تیسرے وقفے کےلیے دوبارہ اس عہدے پر براجمان ہیں ، ہر وقفہ چار سال کا ہوتا ہے لیکن ان کی کارکردگی کیا ہے ہم سب جانتے ہیں، پاکستان اسپورٹس بورڈ ملک میں کھیلوں کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ ہے ، لیکن اس کے اخراجات سالانہ بجٹ دیکھ لیں اور کھیلوں میں کارکردگی دیکھ لیں ، اولمپکس 2016میں 87ایسے ملک ہیں جنہوں نے کوئی نہ کوئی میڈل ضرور حاصل کیا ہے ، ان میں قطر، نائیجریا، پرتگال، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور نہ جانے کون کون سے چھوٹے ممالک جن کی آبادی بہت کم ہے یا وہ ملک چھو ٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہیں، لیکن انہوںنے اپنے اپنے ملکوں کےلیے میڈلز جیت کر وقار میں اضافہ کیا ہے ، پاکستان کے 7کھلاڑیوں نے اولمپکس میں شرکت کی جبکہ ان کے ہمراہ 17آفیشلز بھی اپنے دل پشوری کرنےکےلیےساتھ تھے، جب ان آفیشلز سے پوچھا جائے کہ اتنے آفیشلز کی کیا ضرورت تھی تو ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی بہترین پرفارمنس کےلیے آفیشلز کا ہونا ضروری ہے لیکن وہ پرفارمنس دیکھنے کیلئے پوری قوم کی آنکھیں ترس گئی ہیں، جب ان سے یہ سوال کیا جائے کہ کھلاڑیوں کے ساتھ جانے والے آفیشلز تو پرفارمنس کو بہتر بنانے کےلیے ضروری تھے گو کہ یہ فارمولہ کبھی کارگر ثابت نہیں ہوا، تو پھر دیگر آفیشلز کی بڑی تعداد کیوں گئی تو یہ جواب دینگے کہ ملک میں کھیلوں کے فر وغ کےلیےان دوروںسے بہت کچھ سیکھا جاتاہے ، لیکن ملکی وسائل اور زرمبادلہ کو ضائع کرنے کے علاوہ کیا سیکھا یہ آج تک سمجھ نہیں آسکا ، ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ وہاں اپنی ذات کے حوالے سے یادگار سلفیاں ضرور بنتی ہیں، ملک میں کھیلوں کےفروغ کےلیے اس سیلفی گروپ سے نہ جانے کب نجات حاصل ہوگی اور نہ جانے کون ان کی باز پرس کرے گا، 20کروڑ کی آبادی والے ملک میں کھیلوں کو کب فروغ حاصل ہوگا، کب ہمارا جھنڈا بھی ان بڑی گیمز میں لہرائے گا یہ کوئی نہیں جانتا سوائے ماضی کی مثالیں دے کر اور ملک میں اسپورٹس کےلیے کم وسائل کا رونا رو کر ہم قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیںگے ، کوئی ہے جو ان کا احتساب کرے، کوئی ہے جو انہیں لگام ڈالے ،کوئی ہے جو ان سے حساب مانگے ،لیکن جہاں حمام میں سارے ہی ننگے ہوں وہاں کون کسی کو کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے ۔


.
تازہ ترین