• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان کا نام اکثر جلدی جلدی ہمارے قومی پریس میں چھپتا رہا ہے اور یہ امریکہ کے ان فوجی جرنلوں میں سے ہیں جن کی رائے اور تجرئیے کو اہمیت دی جاتی ہے ان کا نام جنرل مارٹن ڈمپسی ہے۔ یہ امریکی فوج کے چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ہیں انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ عراق کی فوج کا نصف حصہ ایسا ہے کہ وہ داعش کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ان کی تربیت اور لڑنے کی صلاحیت مشکوک ہے۔ جنرل ڈمپسی کی رائے سے اتفاق کرنے کی وجوہات اور شواہد ایسے موجود ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تجزیہ بالکل درست ہے جو حالات سامنے آرہے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عراق اور افغانستان کی ساری کی ساری فوج بے ہنر اور جنگجویانہ صلاحیت میں کمزور ہے۔ جنرل ڈمپسی کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جنھوں نے عراق کی نئی فوج کو تربیت دی ہے کیا ان کی عسکری صلاحیت قابل بھروسہ ہے۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان دونوں ملکوں میں فوج کی تربیت کی ہے اور دونوں جگہ امریکہ کی تربیت یافتہ فوج معیار پر پوری نہیں اتری ہے۔
داعش نے عراق کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہےاور عراقی فوج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ اپنی فضائی قوت عراق میں استعمال کر رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر یورپ کی عسکری طاقتوں کو عراق پرحملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکی عسکری قیادت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر انہوں نے داعش پر دبائو نہ بڑھایا تو وہ عراق پر ہی نہیں شام پر بھی قبضہ کر لیں گے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اور دفاعی حکمت عملی میں مشرق وسطیٰ میں ترجیحی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی سلامتی اور مفادات کو ہر وقت اور ہر حالت میں مقدم رکھا جائے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ کے اس علاقے میں واقع ہے جہاں امریکی دفاعی پالیسی سازوں کی حکمت عملی 1980ء سے یہ رہی ہے کہ اس علاقے کو کسی طرح مستحکم نہ ہونے دیا جائے اور امریکہ کی یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب رہی ہے ۔عراق اور ایران کے درمیان تقریباً آٹھ سال تک بلکہ کچھ زیادہ جاری رہنے والی جنگ کا مرکزی کردار امریکہ تھا وہ یہ چاہتا تھا کہ وہ دونوں ہی ملک جنگ کی تباہ کاریوں کی نذر ہو جائیں۔ اس لئے کہ دونوں ملک اسرائیل اور امریکہ کے لئے بڑا خطرہ THREAT بنے ہوئے تھے لیکن امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی درحقیقت جو لوگ اور اہل دانش اس مقدمے کے اندرونی معاملات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عراق اور ایران میں مسلسل ناکامیوں کی وجہ سی آئی اے اور پنٹاگون میں بیٹھے ہوئے یہودی لابی کے حامیوں کی شکست تھی۔رونالڈ ریگن کے بعد جو بھی امریکی صدر آئے وہ ناکام ہوئے امریکہ نے سی آئی اے کی غلط اطلاعات اور جاسوسی رپورٹوں کو سامنے رکھ کر جو بھی کارروائیاں کیں خواہ وہ صدام حسین کے دور میں یا ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے دور میں یا اس کے بعد کی گئیں اس میں اسے ناکامی ہوئی۔آج عراق کا جو حال ہے وہ صرف اس علاقے کے لئے خطرناک نہیں ہے بلکہ دنیا اور انسانیت کے لئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ امریکہ نے جو آگ شام میں اور عراق میں اپنے مفادات کے لئے بھڑکائی تھی آج وہ امریکہ اور یورپ کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔جنرل مارٹن ڈمپسی آج جو یہ کہہ رہے ہیں کہ عراق میں داعش کو روکنا اور ختم کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے یورپ اور امریکہ کو مل کر کارروائی کرنا ہوگی اور یورپ اس کے لئے تیار بھی ہو گیا ہے لیکن کیا امریکہ اور یورپی ممالک پھر کسی بڑی مہم جوئی کی دلدل میں پھنسنا چاہتے ہیں۔خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ عرب ملک بھی داعش کے خلاف کارروائی کا حصہ ہوں گے۔ اس طرح داعش کی انتہا پسندی اور دور جاہلیت جیسا عمل مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کی ناکامیوں کی ایک بڑی فہرست ہے۔ ویت نام سے امریکہ فوجی شکست کے بعد فرار ہوا صومالیہ میں امریکہ کو ہزیمت ہوئی۔ امریکہ نے نتائج پر غور نہیں کیا اور نہ سبق سیکھا۔ وہ مشرقی وسطیٰ میں بھی ناکام ہوا وہاں جنگ کے شعلے آج بھی بھڑک رہے ہیں۔جب افغانستان میں القاعدہ کا پیچھا کرتے ہوئے امریکی وہاں پہنچے تو امریکی CIA اور پینٹا گون کے پالیسی ساز پھر ایک بڑی غلطی کر رہے تھے وہ افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا وہاں سے عزت سے نکلنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ القاعدہ جو ان کے نشانے پر تھی اب دنیا کے کئی علاقوں اور ملکوں میں مختلف ناموں سے موجود ہے۔ امریکیوں نے یہ سمجھا تھا کہ اسامہ بن لادن کی موت القاعدہ کو ختم کر دے گی لیکن نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ امریکیوں کی یہ امید قطعاً غلط تھی افغانستان آج بھی امریکہ کے لئے بہت بڑا درد سر ہے اور وہاں امریکہ کی حامی حکومت کا قیام مشکل بن گیا اور افغان طالبان اسٹرٹیجک حملے بڑھا رہےہیں۔ امریکہ کو جہاں بھی ناکامی ہوئی وہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہ متخاصم(Hostile)سرزمین پر برسر پیکار تھا۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کی افواج شمالی وزیرستان میں آپریشن کو سمیٹے اور وہاں سول انتظامیہ بحال کی جائے پاکستان کی افواج کی کامیابیاں قابل تحسین ہیں حکومت کو انتہا پسندوں کی نفسیاتی اصلاح کی ضرورت ہے۔وہ امریکہ میں ہوں یا کسی اور ملک میں جنرلوں اور فوجیوں کی سوچ مسائل کے حل کے لئے جدا جدا ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک سرجن اور ایک فزیشن کی سوچ الگ ہوتی ہےکسی مریض کی بحالی کے لئے سیاستدان عدالتوں کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹیں اور خود عدلیہ کو بھی اس سے اجتناب کرنا چاہئے کہ سیاستداں نصف صدی سے زیادہ ہو گیا یہ کرتے آرہے ہیں داعش کا جن اگرعرب ملکوں، امریکہ اور یورپ کے لئے خطرہ بن سگتا ہے تو پاکستان کو بھی متاثر کر سکتا ہے ہم دوسروں کے فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں اسی میں ہماری سلامتی کا راز ہے۔
تازہ ترین