• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگجوئوں کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر امریکا مایوس، پاکستان کی امداد میں نمایاں کمی

واشنگٹن (رائٹرز) امریکا کے فوجی، سفارتی، انٹیلی جنس اور بیرونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امریکا مخالف شدت پسند گروپس کی مستقل حمایت اور ساتھ ہی بھارت کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے فوجی اور کاروباری تعلقات کی وجہ سے اسلام آباد کی امریکا کے اسٹریٹجک اتحادی کی حیثیت سے اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران امریکا نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد میں نمایاں کمی کی ہے اور یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی حکام کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اسی مایوسی نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو ایک دہائی کے دوران متاثر کیے رکھا ہے۔ امریکی حکام اور مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے جن علاقوں کو امریکا اور اتحادی افواج نے محفوظ بنانے کی کوشش کی تھی ان میں شدت پسند اسلامی گروپ کے پھیلائو کی وجہ سے اس مایوسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکا کی جنوبی ایشیا پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جو اب افغانستان اور پاکستان سے ہٹ کر بھارت کی جانب مرکوز ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں ہمیشہ سے ہی عدم اعتماد اور موڈ کی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت بند کرنے سے انکار سے امریکا کی مایوسی نے اوباما انتظامیہ کو افغانستان میں نئی فوجی شمولیت سے دور رکھا ہے اور ساتھ ہی یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ چین کو امریکا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کی مدت مکمل ہونے تک افغانستان میں 8400؍ فوجی رکھیں گے، اس طرح انہوں نے سال کے آخر تک تعداد کو آدھے تک پہنچانے کے منصوبے کو ختم کر دیا۔ کوئی دور تھا جب پاکستان امریکی امداد حاصل کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہوا کرتا تھا لیکن 2016ء میں اسے ایک ارب ڈالرز سے بھی کم امداد ملے گی، اور امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں پاکستان کو ساڑھے 3؍ ارب ڈالرز سے بھی زیادہ امداد ملی تھی۔ مارچ میں ری پبلکن سینیٹر باب کارکر، چیئرمین سینیٹ خارجہ تعلقات کمیٹی، نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب سے 700؍ ملین ڈالرز مالیت کے ایف 16؍ طیاروں کی خریداری کیلئے 430؍ ملین ڈالرز کی امریکی امداد پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کریں گے۔ رواں ماہ کے اوائل میں وزیر دفاع ایش کارٹر نے پاکستان کو 300؍ ملین ڈالرز کی امداد دینے کیلئے توثیق سے انکار کردیا اور کہا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے۔ ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پینٹاگون کو آئندہ مالی سال کیلئے 350؍ ملین ڈالرز کی امداد دینے کیلئے توثیق کرنا ہے اور امکان نہیں کہ اوباما انتظامیہ کے دوران اس کی منظوری حاصل ہو سکے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ماہر بروس ریڈیل کا کہنا ہے کہ کانگریس ایک ایسی ریاست کی مالی معاونت کرنا نہیں چاہتی جو ان افغان طالبان کی حامی ہے جو امریکی فوجیوں کو مارتے ہیں۔ مئی میں امریکا نے پاکستان کو بتائے بغیر بلوچستان میں طالبان لیڈر ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا تھا۔ امریکا کے کچھ عہدیداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ وقت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستانی حکام نے ان الزامات کی ہمیشہ سے ہی تردید کی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود طالبان کی حمایت یا ان کی معاونت کرتا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا 100؍ ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے، ہم نے اس جنگ میں کسی اور ملک سے زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت میں پاکستان امداد کے دیگر ذرائع بشمول چین کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ لیکن چاہے کچھ بھی ہو، امریکا کا پاکستان کے روایتی حریف ملک بھارت کی طرف جھکائو بڑھتا رہے گا اور امریکا کی دفاعی کمپنیاں بشمول لاک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ بھارتی مارکیٹس تک رسائی حاصل کر رہی ہیں اور بھارت سعودی عرب کے بعد دوسرا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ امریکا اور بھا ر ت نے فوجی لاجسٹکس کا تبادلہ کرنے پر اصولی اتفاق بھی کیا ہے کیونکہ دونوں چین کے اثر رسوخ میں کمی لانا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین