• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کے پی کے :تیل وگیس تلاش کرنیوالی غیر ملکی کمپنی اربوں کا تیل چوری کرنے میں ملوث

اسلام آباد( عاطف شیرازی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی پٹرولیم میں  انکشاف کیا گیا ہے کہ تیل و گیس تلاش کرنے والی غیر ملکی  کمپنی مول(MOL) نے 250 آئل ٹینکرز میں آلٹریشن کے ذریعے اضافی گنجائش پید ا کر کے اور واٹر باوزرز کے ذریعے اربوں روپے کا تیل چوری کیا ، اب  مول کمپنی ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہے ، اوگرا ماہرین کی بھی مدد درکار ہے ،چئیرمین کمیٹی ملک اعتبار نے آئندہ اجلاس میںکمپنی کے ایم ڈی کو بمعہ ریکارڈ طلب کر لیا ہے سیکرٹری پٹرولیم نے ایک ہفتہ کے اندر ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس ممبر قومی اسمبلی ملک اعتبار کی زیر صدار ت او جی ڈی سی ایل ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا اجلا س میں صوبوںکو ملنے والی رائیلٹی اور مول میں اربوں روپے کی چوری کے معا ملا ت کو زیر غور لایا گیا ، اجلاس میں ایف آئی اے کے حکام نےبتایاکہ کرک میں داود شاہ کے مقام پر اربوں روپے کے خام تیل کی چوری ہوئی ہے مول کمپنی پر چوری ہوئی ہے کہ مین ٹرانسمشن لائن سے پنکچرز کے زریعے تیل چوری ہوا ہے جس پر ایف آئی اے نے انکوائری کی تو معلوم ہوا ہے کہ آئل ٹینکرز میں آلٹریشن کے ذریعے اضافی گنجائش پیدا کر کے روزانہ 500 سے 1000 لیٹر تیل چوری کیا گیا ہے جب کہ آئل ٹینکرز کی سپیسفیکیشن  اوگرا سے منظور شدہ ہوتی ہے مگر یہ چوری ٹینکرز میں اضافی گنجائش پیداکرکے کی گئی اسی طرح یہ بھی معلوم ہو ا ہے کہ چوری واٹر باوزرز کے ذریعے بھی ہوئی جن کنٹریکٹرز کے ذریعے کمپنی میں پانی فراہم کیا جاتا تھا واپسی پر انہی واٹر باوزرز کے ذریعے تیل چوری ہوتا رہا ہے اس حوالےسے 100 سے زائد ایف آئی آر کااندراج ہوا ہے اور 150 کے قریب ملزمان بھی گرفتار کیے گئے ہیں اس ایشو پر کے پی کے احتساب کمشن بھی  انکوائری کررہا ہے پولیس کی تفتیش ڈرائیور اور کلینڈرز سے آگے نہ بڑھ سکی یہ نہ معلوم کیا جا سکا کہ اس کے پیچھے ملوث کون تھا اور مول کے کون سے لوگ شامل تھے پولیس نے مقدمات کی کھچڑی بنادی ہے 250 باوزرز تیل چوری میں ملوث تھے مگر مول نے بھی کوئی لیگل ایکشن نہ لیا جب مول کو پتہ چلا تو انھوں نے کچھ باوزرز کو عارضی اور کچھ کو مستقل بند کردیا لیکن ایف آئی آر کا اندراج نہ ہوا اور نہ ہی مول کی جانب سے تعاون کیا جارہا ہے کیرج کنٹریکٹر میں ایک سعداللہ شاہ ہے اور دوسرا این ایل سی ہے یہ چوری کیپسٹی کو بڑھا کر اضافی گنجائش کے ذریعے ہوئی ہے اوگر ا ایکسپرٹ کی بھی مدد درکار ہے اورمول کا بھی تعاون درکا رہے ممبر کمیٹی  اکرم درانی نے کہاکہ یہ چوری خود مول نے کی ہے یہ اربوں کی نہیں کھربوںکی چوری ہے اس میں ڈیپا ر ٹمنٹ کی خاموشی اور طول بھی شامل ہے ہم ایک سال سے بات کررہے ہیں لیکن مول اتنی طاقتور ہے کہ وزارت کے کنٹرول سے بھی باہر ہے یہ ملک کا نقصان ہوا ہے۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ، ممبر کمیٹی اکرم درانی  نےکہا کہ آپ اس کمپنی کو بلیک لسٹ کیوں نہیں کرتے جس پر سیکرٹری نےکہا کہ قانونی تقاضے مکمل کیے بغیر کسی کو بلیک لسٹ نہیں کیا جاسکتا ہے ، ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کمپنی بھی اس میں ملوث ہوگی، سیکرٹری  پٹرولیم نےکہا کہ وزارت کے ریفرنس پر ہی ایف آئی اے انکوائری کررہا ہے اس سے قبل محکمانہ انکوائری میں ان کو کلین چٹ دی گئی تھی جس کو مسترد کیا گیا پاکستان کا سرمایہ چوری ہوا ہے ہم نے قانونی تقاضےپورے کرنےہیں۔چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ مول والوںکو طلب کرلیں ۔جس پرسیکرٹری نے کہا کہ جوائنٹ وینچر تھا سب کو طلب کریں ۔ایف آئی اے کے حکام نےکہا کہ مول والے ریکارڈ نہیں دے رہے ہیں سیکرٹری صاحب مد د کریں جس پر انہوں نے ایک ہفتہ میں ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی چیئرمین نے کہا کہ مول اور اوگرا ایکسپرٹ کو بھی آئندہ اجلاس   میں بلایا جائے۔ اجلاس میں صوبوں سے نکلنے والے تیل و گیس کی مد میں رائیلٹی کے معاملات کو بھی زیر غور لایا گیا، پنجاب انرجی ڈیپارٹ کے حکام نےبتایاکہ پنجا ب کے 8 اضلاع سے تیل وگیس دریافت ہو رہا ہے ان میں میانوالی، اٹک، جہلم، چکوال، جھنگ،خانیوال،راولپنڈی  کے اضلاع  سے نکل رہا ہے 2013 سے اب تک ان اضلاع کو 2 ارب تیس کروڑ روپے رائلٹی کی مد میں دیے گئے خیبر پختونخوا  کےحکام نےبتایا کہ کوہاٹ اور ہنگو سے تیل وگیس دریافت ہوئی ہے  کوہاٹ کو اب تک سوا دو ارب روپے سے زائد رائلٹی اور 21 کروڑ پروڈکشن بونس کی مد میں دیے گئےجبکہ ہنگو کو 65 کروڑ سے زائد رائلٹی کی مد میں ادا کیےگئے ، سندھ حکا م نےبتایاکہ 1989 سے 2014تک226 ملین رائلٹی کی مد میںملے ہیں اور تین ارب پروڈکشن بونس سےملے ہیں سندھ میں 315سکیموں پر یہ 23 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوئے کمیٹی نے اگلے اجلاس میںتمام صوبو ںکےانرجی دیپارٹمنٹ کے سیکرٹریز کو طلب کرنے کی بھی ہدایت کی کہ اعلیٰ فورم پر ایڈیشنل یا ڈپٹی سیکرٹریز کے بجائے سیکرٹریز خود آکر بریفنگ دیں 
تازہ ترین