نئی دہلی/ اسلام آباد (رائٹرز) بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی گزشتہ ہفتے سالانہ یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب کی تیاری کےلیے اپنے اعلیٰ ترین معاونین سے ملے تو بھارت کے چند سینئر بیورکریٹوں نے انہیں پاکستان کے جنوب مغربی شورش زدہ علاقے بلوچستان کا تذکرہ کرنے سے روکا تھا تاہم بھارتی وزیر دفا ع نے بیوروکریٹس کی رائے مسترد کردی، وزیرداخلہ راجنا تھ نے ان کی تائید کی۔پاکستانی سفارتکاروں کے خیال میں بھارتی وزیراعظم نے سرخ لکیر عبور کرلی ہے اور ایک امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ مودی کی تقریر سے پاسکتان کے ہاتھ گولہ بارود لگ گیا ہے۔اگست میں ہونے والے متذکرہ اجلاس میں ان بیورو کریٹس نے انتباہ کیا تھا کہ اس اہم موقع پر ہونے والی تقر یر میں بلوچستان کا تذکرہ کرنا انتہائی غیرمعمولی اقدام ہوگا اور اس سے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی بڑھنا لازم تھا۔ اس اجلاس میں عقابی رویئے کے حامل سیاستدان بھی موجود تھے اور ان کے خیال میں کشمیر میں پاکستان کی جانب سے کھڑی کی جانے والی مشکلات سے نالاں تھے، یہ سیاستدان مختلف طریقے سے سوچ رہے تھے اور مودی نے ان کی خواہش کے مطابق عمل کیا۔ مودی نے پاکستان سے نمٹنے کےلیے مزید طاقت استعمال کرنے کا عندیہ دیا۔ اس عمل نے دونوں سخت حریف ممالک کو قریب لانے کے امکانات کو مزید دھندلادیا ہے۔ ایک بھارتی عہدیدار نے معاملے کی نزا کت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ان بیورکریٹس نے تجویز دی تھی کہ بلوچستان کے بارے میں بات کرنا اگرچہ اچھاآئیڈیا ہے لیکن یوم آزادی کی تقریر میں اس کاحوالہ دینا مناسب نہیں کیونکہ یہ اس کےلیے موزوں پلیٹ فارم نہیں ۔ اس موقع پر بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے بیوروکریٹس کی اس تجویز کو مسترد کر دیاجب کہ بھارتی وزیر داخلہ نے پاریکر کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان کو خاموش کرانے کےلیے سب کچھ کرنا چاہئے، بھارتی وزارت کارجہ نے مودی کی تقریر کے حوالے سے بحث مباحثے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ مودی اور وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے بھی اس پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا، 15اگست کی اس تقریر میں مودی نے بلوچ رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بلوچستان کاز اٹھانے پر ان کےلیے تعریفی ویڈ یو زجاری کی تھیں۔ اس کے بعد وہ دہشت گردی کے حامیوں پربرسے ۔بھارت کی جانب سے اس سرخ لکیر کو پار کرنے کے عمل کو پاکستان نے پکڑ لیا ہے اور مودی کی تقریر کو ایک ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے کہ ایک دہائی سے جاری بلوچ علیحدگی پسندوں کی مہم میں بھارت کا ہاتھ ہے جہاں شورش پسند اکادکا حملے کرتے رہتے ہیں اور آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں ، بھارت اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ مود ی نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے ۔ ادھر بھارتی عہد یدا روں کا کہنا ہے کہ تقریر کا مقصد دنیا کو بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ور ز یو ں کی یاددہانی کرانا تھا بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کے ہاتھوں شہریوں سے بد سلو کی پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ مودی کے قریبی لوگوں کے علاوہ باقی سب اب پوچھ رہے ہیں کہ جغرافیائی و سیاسی مفادات کا دائرہ وسیع کرنے سے بھارت سیاسی طور پر کیا فائدہ اٹھا سکےگا۔ واشنگٹن کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا ے ماہر ڈینیل مارکی کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر اس کا بہت ہی کم فائدہ ہے کیونکہ پاکستان اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پر استعمال کررہا ہے اس سے انہیں (پاکستانیوں) کوگولہ بارود مل گیا ہے۔ نئی دہلی میں مقیم بھارت کے ایک روایتی دوست ملک کے ایک سفارتکار کا کہنا ہے کہ اس سے صرف کشیدگی بڑھے گی۔ مودی کی حکمران پارٹی کے ایک عہدیدار کا کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’’عسکریت پسندی سے نمٹنا ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہم اس میں کسی ملک کی مدا خلت برداشت نہیں کریں گے۔اگست میں ہونے والے اجلاس میں پاریکر نے یہ بھی کہا تھا کہ بلوچستان کا تذکرہ کرکے مودی دراصل خطے میں بے چینی کے حوالے سے چین کے کردار کو بھی نمایاں کرپائیں گے۔