• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے مردم شماری کرانے کے بارے میں حکومت کے اس موقف کو رد کر دیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے مارچ 2017میں مردم شماری کرانے پر اتفاق کیا ہے لیکن چونکہ یہ کام افواج پاکستان کے ایک لاکھ اہلکاروں کی دستیابی سے مشروط ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے دستیاب نہیں۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ مردم شماری روایت نہیں ایک آئینی ضرورت ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ فوج دستیاب نہیں ہو گی تو ملک میں مردم شماری نہیں ہو گی اس لئے اگرحکومت مردم شماری کرانے میںلیت ولعل سے کام لے گی توعدالت عظمیٰ اس بارے میںاپنا فیصلہ صادر کرےگی۔ مردم شماری حکومت کی ایک آئینی اور اساسی ضرورت ہے کیونکہ اسی کے ذریعے آبادی کے درست اعداد و شمار کا پتہ چلتا ہے ۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے آبادی کے صحیح ترین اعداد و شمار کے حصول کے لئے مردم شماری ایک ناگزیر آئینی تقاضا ہے جس سے ہماری حکومتیں مشرف دور کے بعد سے لے کر اب تک مسلسل گریز کرتی چلی آ رہی ہیں ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کو مختلف حلقوں میں جو بالادستی حاصل ہے وہ اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی تاکہ آبادی کے نئے اعداد و شمار ان کی سیاسی حیثیت کو تہ و بالا نہ کر دیں۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ فوج دستیاب نہیں ہو گی تو ملک میں مردم شماری نہیں ہو گی۔ بنیادی طور پر یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقررہ مدت میں مردم شماری کرائے اور جب باقی کئی معاملات فوج کو شامل کئے بغیر کرا لئے جاتے ہیں تو مردم شماری بھی قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی مدد سے کرائی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے صوبوں اور وفاق میں آویزش بھی جنم لے رہی ہے اس لئے اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔


.
تازہ ترین