• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید بعض لوگ یقین نہ کریں لیکن اللہ گواہ ہے کہ اردو بولنے والے میری محبوب ترین قوم میں سے ایک ہے ۔ اس قوم کو میں اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ پاکستان ہم سب کے لئے بن رہا تھا لیکن اس کے لئے گھر بار چھوڑنے اور جان ومال دائو پر لگانے کی قربانی ان لوگوں نے دی ۔ وہ اپنے ساتھ بموں یا بندوقوں کی بجائے علم ، ادب ،تہذیب ، ہنر اور بہترین اردو زبان لائے، جس سے مجھ سمیت ہر پاکستانی مستفید ہوا اور ہورہا ہے ۔ انہی کی صفوں میں عبدالستار ایدھی جیسی عظیم شخصیت پاکستان آئی جو پوری انسانیت کا فخر تھے۔ انور مقصود ہوں کہ فاطمہ ثریابجیا، احمد جاوید ہوں کہ ڈاکٹر خالد مسعود ، جاوید میاں داد ہوں کہ معین اختر ، ایک دو نہیں ،ہزاروں اردو بولنے والے ہیں جنہوں نے ہم سب یعنی پنجابیوں، بلوچوں، پختونوں، سندھیوں، کشمیریوں اور گلگتیوں اوربلتیوں کے ملک یعنی پاکستان کے نام کو دنیا میں روشن کیا اور روشن کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اردو بولنے والوں کے ہر ہر فرد کو اپنا محسن سمجھتا ہوں لیکن ان کی صفوں میں سے بعض کا میں خصوصی طور پر احسان مند ہوں اور ان خصوصی محسنوں میں ایک مصطفیٰ کمال بھائی بھی ہیں۔جنہوں نے عزت و محبت کے ساتھ ساتھ مجھے غیرمعمولی اعتماد کے بھی قابل سمجھا۔ میرے نزدیک اگر کوئی انسان آپ پر اعتماد کرکے دل کی بات آپ کو بتاتا ہے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اور مصطفیٰ بھائی نے کسی زمانے میں اپنی زندگی کا رسک لے کر دل کی باتیں بتا کر میرے اوپر عظیم احسان کیا۔ مثلاًگزشتہ انتخابات سے قبل 2011 سے وہ مجھے پارٹی کے اندر محسوس کرتے ہوئے گھٹن سے آگاہ کرتے رہے۔ ان کے ساتھ دوستی اور احترام کا تعلق ضرور تھا لیکن میں پاکستانی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پختون بھی تھا اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ ان کے اس وقت کے شدید مخالف شاہی سید صاحب بھی میرے دوست ہیں ۔ یوں وہ مجھ پر شک کرسکتے تھے لیکن پھر بھی الطاف حسین سے متعلق بعض دل کی باتیں انہوں نے میرے ساتھ شیئر کیںاور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے ان کے اعتماد پر پورا اتارد یا ۔ مثلاً گزشتہ انتخابات سے قبل الطاف حسین صاحب نے کراچی کے اردو بولنے والوں کو پختونوں سے لڑاکر پانچ چھ ہزار لاشیں گرانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی کوشش تھی کہ انتخابات سے قبل کراچی میں ایسی جذباتی فضا بنائی جائے کہ سب اردو بولنے والے انتخابات میں ایم کیوایم کے پیچھے کھڑے ہوجائیں ۔ مصطفیٰ کمال بھائی اور ان کے کچھ قریبی ساتھی اندر کوشش کرتے رہے کہ اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنایا جائے جبکہ دوسری طرف میں نے کوئی تفصیل بتائے بغیر شاہی سید صاحب اور اسفند یار ولی خان صاحب کو سمجھانے بجھانے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اسی تسلسل میں میں نے اے این پی کے سینیٹر عبدالنبی بنگش اورمصطفیٰ بھائی کی ملاقات بھی کرائی ۔ ہم شاہی سید صاحب کی منت کرتے رہے کہ وہ ایم کیوایم کے تلخ بیانات یا اشتعال دلانے والے اقدامات کا جواب نہ دیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے ہماری درخواستوں پر انہوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور تصادم کی جو فضا الطاف حسین صاحب پیدا کرنا چاہتے تھے، اس طرف ماحول کو جانے نہیں دیا ۔ یوں مصطفیٰ کمال کی کوششوں، عبدالنبی بنگش کی دانشمندی اور شاہی سید صاحب کے صبر کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اسی طرح گزشتہ عام انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی نے تین تلوار پرمبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا تو اب کی بار قائد تحریک نے ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کولڑانے کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے سے متعلق ایک بار پھر مصطفیٰ کمال بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا اور تاکید کی کہ پی ٹی آئی میں اپنے دوستوں سے رابطے کروں اور وہی کردار ادا کروں جو میں نے اے این پی کے معاملے میں ادا کیا تھا۔ میں نے ویسا ہی کیا لیکن اصل رول پھر مصطفیٰ کمال نے ادا کیا۔ انہوں نے انیس قائم خانی اور دیگر ہم نظر ساتھیوں کے ذریعے پارٹی کے اندر رہ کر بچ بچائو کیا اور الطاف حسین کے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا کہ وہ لوگ جاکر اسی تین تلوار چوک میں اسی جگہ جوابی دھرنا دیں جہاں پی ٹی آئی کے لوگ بیٹھے ہیں ۔ اسی حکم عدولی کی وجہ سے الطاف حسین صاحب نے اگلے روز نائن زیرو میں رابطہ کمیٹی کے ارکان کو ورکرز سے بے عزت کرایا ۔ جس کے بعد مصطفیٰ کمال صاحب اور انیس قائم خانی صاحب ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔ میرا اس وقت بھی ان کو مشورہ تھا کہ وہ پارٹی کے اندر رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کریں لیکن رو رو کر مصطفیٰ بھائی یہی جواب دیتے رہے کہ وہ اپنے ضمیر پر اس بوجھ کو مزید برداشت نہیں کرسکتے ۔اسی طرح یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب مصطفیٰ کمال ابھی ایم کیوایم میں تھے اور بظاہر الطاف حسین کے پسندیدہ ترین لیڈر شمار کئے جاتے تھے ۔ لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کے بعد میں واپس لوٹا تھا۔ وہاں میں نے محسوس کیا کہ ان کی صحت تیزی کے ساتھ خراب ہورہی ہے ۔ اس ملاقات میں میں نے ان کو ذہنی لحاظ سے بھی غیرمتوازن پایا۔ میں نے مصطفیٰ کمال کے سامنے الطاف حسین صاحب کی صحت کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ مر نہ جائیں ۔ لیکن جواب میں مصطفیٰ کمال نے فرمایا کہ سلیم بھائی! مطمئن رہیں وہ زندہ رہے گا ۔ اس معاملے میں ان کا اعتماد دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ مصطفیٰ بھائی! ان کی صحت بہت خراب ہے اور آپ کیا اللہ سے مشورہ کرکے آئے ہیں جو اس اعتماد سے کہتے ہو کہ وہ زندہ رہیں گے ۔ وہ کہنے لگے کہ یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے کہ اس طرح کے بندے کی حقیقت کو آشکار اور رسوا کئے بغیر اس دنیا سے بھیج دے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلیم بھائی! الطاف حسین کے جرائم سے آپ جیسے لوگ بہت کم واقف ہیں ۔ اس بندے نے جو ظلم ڈھائے ہیں اور جس طرح ہم جیسے لوگوں کو دھوکے دئیے ہیں ، ان کا آپ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے اور میرا ایمان ہے کہ اس طرح کے انسان کو رسوا کئے بغیر اللہ اس دنیا سے نہیں اٹھائے گا۔ میں مصطفیٰ بھائی کی بہت ساری خوبیوں کا تو پہلے سے قائل تھا لیکن آج ان کی بصیرت یا پھر اللہ پر مضبوط اعتقاد کا بھی قائل ہوگیاہوں۔ ان کی پیشگوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی اور الطاف حسین صاحب نے اپنی حقیقت خود اپنی زبان سے بیان اور عمل سے آشکار کردی۔
کچھ لوگ حیران ہوں گے اور بجا حیران ہوں گے کہ اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود الطاف حسین صاحب سے میرے راہ و رسم کیسے قائم رہے تو جواباً عرض ہے کہ اس کی تین وجوہات تھیں ۔ ایک تو صحافت تقاضا کرتی ہے کہ آپ ہر طرح کے انسان سے صحافتی ضرورت کے تحت ربط ضبط رکھیں ۔ دوسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ میرا پاکستانیت کا رشتہ تھا ۔ وہ بھی پاکستانی تھے اور میں بھی پاکستانی ہوں ۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ مروجہ معنوں میں مذکورہ بالا عظیم قوم یعنی اردو بولنے والوں کے لیڈر تھے اور اردو بولنے والوں کے احترام میں ، میں نے شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود الطاف حسین صاحب کو عزت دینے کی کوشش کی لیکن اب الطاف حسین صاحب نے ازخودان دونوں رشتہ کو توڑ دیا۔ پاکستان کو گالی دے کر انہوں نے ہم جیسے لوگوں کے ساتھ پاکستانیت کارشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑ دیااور میں کبھی اس شخص کو عزت نہیں دے سکتا جو میری دھرتی کی بے عزتی کرنا چاہتا ہو۔ اسی طرح جن اردو بولنے والوں کی وجہ سے میں ان کی عزت کرتا رہا ، آج انہوں نے خود ثابت کردیا کہ وہ ان کے محسن نہیں ، دشمن ہیں ۔ وہ اب ان لوگوں کی جان نہیں بلکہ ان کے لئے وبال جان ہیں ۔ وہ اپنی انا کی تسکین کے لئے ان کی انائوں اور عزتوں کو قربان کررہے ہیں اور یہ کہ اب وہ قائد تحریک نہیں بلکہ قائد تخریب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے گناہوں اور جرائم کی سزا ، اب ان کی پارٹی اور اردو بولنے والوں کو دی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پے درپے ، جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ریاستی ادارے ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی ان کی جماعت کے خلاف اشتعال میں آتا ہے۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اگر ریاستی ادارے ایم کیوایم یا پھر اردو بولنے والوں کے خلاف اشتعال میں آتے ہیں تو نادانستہ الطاف حسین کی سازش کامیاب کرواتے ہیں ۔ اس لئے حکومت اور ریاستی اداروں سے ہماری التجا ہے کہ وہ الطاف حسین کے جرائم کی سزا پوری ایم کیوایم کو نہ دیں ۔ بطور جماعت ایم کیوایم کا باقی رہنا بہت ضروری ہے ۔ ریاستی اداروں کو چاہئے کہ وہ سختی سے کارروائی کریںلیکن صرف ان عناصر کے خلاف جو جرائم پیشہ ہیں ۔
ضروری ہے کہ ایم کیوایم کے رہنمائوں اورکارکنوں کو سہولت دی جائے کہ وہ الطاف حسین اور جرائم پیشہ عناصر سے اپنے آپ کو الگ کریں لیکن فاروق ستا ر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بھی چاہئے کہ وہ دونوں کشتیوں پر سواری کی کوشش نہ کریں ۔ انہیں نہ صرف الطاف حسین اور ان کے ہمنوائوں سے مکمل لاتعلقی کرنی ہوگی بلکہ اسی طرح ان کی مذمت بھی کرنی ہوگی جس طرح کہ مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھی کررہے ہیں ۔ انہیں اب پورے خلوص کے ساتھ ایم کیوایم کی صفوں میں شامل جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے ریاستی اداروں کا ساتھ دینا چاہئے ۔ ریاستی اداروں نے غصے میں آکر جبر سے کام لیا تو یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا اور الطاف حسین ہی کا کام آسان ہوگا لیکن فاروق ستار اور ان کے ساتھی بھی اگر چالاکی یا غیرضروری مصَلحت سے کام لے کر اگر پاکستان اور الطاف حسین کو ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کریں گے تو ان کو نقصان ہوگا بلکہ خاکم بدہن کسی مرحلے پر ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس انجام کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کا الطاف حسین کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔


.
تازہ ترین