• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے المیے کو مجھ جیسے چند بے آواز قلمکار برسہا برس سے لکھ رہے ہیں۔ کبھی اپنی سوچ پر پہرہ بٹھا کر اور کبھی اپنے بگٹٹ قلم کی لگام کھینچ کر… بین السطور کچھ کہنے کی کوشش ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی اور اکثر پڑھنے والوں کی گرفت میں نہیں آپاتی۔ لیکن جو اس المیے کو جی رہے ہیں اور جن کی زندگیاں خونچکاں ہیں ان کا حال بہت برا ہے۔ ایک نسل کا فاصلہ انہوں نے اسی عالم میں جیسے ایک ہی مقام پر کھڑے رہ کر طے کیا ہے۔ اور اگرہم ان حکمرانوں، فیصلہ سازوں اور رہنمائوں کا ذکر کریں کہ جو اس شہر کے رکھوالے تھے تو نہ صرف اس شہر بلکہ اس ملک کی پسماندگی اور افراتفری کی کئی وجوہات سمجھ میں آسکتی ہیں۔ اس سارے پس منظر میں اب یہ امکان پیدا ہورہا ہے کہ حالات شاید بدل جائیں۔ کئی ابتدائی تبدیلیاں تو واضح ہیں اور اس ہنگامہ خیز اور خبر انگیز ہفتے کے واقعات نے کراچی کی کہانی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیش لفظ تو گزشتہ تین سالوں سے تحریر کیا جاتا رہا ہے کہ جب امن و امان کے قیام کے لئے کراچی آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن نے زور اس وقت پکڑا جب پاکستان کی افواج نے دہشت گردی کے خلاف، ضرب عضب کے پرچم تلے اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کی اور آرمی پبلک اسکول کے ناقابل فراموش سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت نئے منصوبے بنائے گئے۔ اس طرح کراچی میں کئی سالوں سے جاری قتل و غارت گری کے کئی راز افشا ہوئے۔ بہت سی باتوں کے بارے میں جو شکوک پائے جاتے تھے ان کی تصدیق ہوئی۔ سیاست سے منسلک خوفناک جرائم اخبارات کی سرخیاں بنے۔ گرفتار ہونے والوں میں متحدہ اور لیاری گینگ کے کارندے نمایاں رہے۔ خوف کے بادل کسی حد تک چھٹ گئے۔ متحدہ کے قائد کی میڈیا سے غیرحاضری سے بھی فرق پڑا۔ متحدہ کے بڑے ناموں میں سے چند کی گرفتاری نے بھی سیاسی موسم میں تبدیلی کا ثبوت فراہم کیا۔
یہ سب تو ہو ہی رہا تھا لیکن اس ہفتے جیسے بجلی کوندی۔ بادل پھٹ پڑے۔ ایک طوفان اٹھا جو ابھی جاری ہے۔ اس شہر کے رہنے والوں نے کب یہ سوچا تھا کہ وہ دن بھی آئیں گے کہ جب متحدہ کے رہنما اپنے قائد سے لاتعلقی کا کہیں واضح اور کہیں مبہم اعلان کریں گے۔ اب یہ دیکھئے کہ جب میں یہ لفظ تحریر کررہا ہوں، میرے سامنے پڑے اس اخبار کی شہ سرخی یہ کہہ رہی ہے کہ ’’الطاف کی تصاویر ہٹا دیں، دفاتر مسمار‘‘۔ پیر کی شام کے دھماکے کے بعد سے کہ جب متحدہ کے قائد نے کراچی پریس کلب کے باہر قائم ہڑتالی کیمپ کے شرکاء سے ٹیلیفونک خطاب کیا اور اپنے کارکنوں کو میڈیا پر حملے کے لئے اکسایا اب تک اتنا کچھ ہوچکا ہے کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا۔ ایک طرف متحدہ کے قائد کے لرزہ خیز بیانات ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں موجود متحدہ کی قیادت کی مشکلات ہیں۔ سوچ کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ کہیں متحدہ کے قائد کی تازہ پاکستان دشمنی کا کوئی تعلق خطے کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے تو نہیں۔ ابھی تک کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ برطانیہ اپنے ایک شہری کی ان حرکات کو کیوں برداشت کرتا رہا ہے۔ یہ کون کیسی سازشیں کررہا ہے کہ ہمارے ٹاک شوز کے دیدہ ور بھی حیران اور پریشان ہیں۔ یہاں میں یہ اقرار بھی کرلوں کہ اپنے اس اعلان کے بعد کہ میرا ٹاک شوز سے پرہیز ہے میں اس ہفتے پھر نیوز چینلز کے دام میں گرفتار رہا ہوں۔
بہرحال، جو کئی سوال میرے ذہن میں سلگ رہے ہیں ان میں سے صرف دو کا میں سرسری ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ کراچی اور متحدہ کی سیاست کے حوالے سے اردو بولنے والوں یعنی مہاجرین کا بہت ذکر ہوتا ہے یہ کہ مہاجرین پاکستان بنانے والوں میں شامل تھے اور ان کی بے شمار قربانیاں ہیں۔ متحدہ نے مہاجرین کے احساس محرومی کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو فاروق ستار اپنے قائد سے لاتعلقی کی بات کررہے ہیں تو کیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اس کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ الطاف حسین کی بنائی ہوئی پارٹی کی ساخت کیا ہے۔ یہ دوسری سیاسی جماعتوں سے کس طرح مختلف ہے۔ تاریخ میں ہمیں ایسی جماعتوں کی مثالیں مل جاتی ہیں جو شخصیت پرستی کے شکنجے میں پھنسی۔ کسی مخصوص شناخت کا علم بلند کرتی ہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ دونوں موضوعات ایسے ہیں کہ جن پر ایک مختصر کالم میں گفتگو ممکن نہیں ہے۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ اختلافی معاملات ہیں۔ کسی اعلٰی تعلیم کی درسگاہ کے لیکچر ہال میں، تاریخ اور سماجی علوم سے وابستہ افراد کے درمیان تو شاید یہ گفتگو شروع کی جاسکے۔ ورنہ ہمیں ٹاک شوز پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ یہاں میں کراچی اور سندھ میں رہنے والوں کی ان توقعات کا حوالہ بھی دے دوں کہ جو انہوں نے پاکستان کے قیام سے وابستہ کی تھیں۔ گویا ذکر اگر کراچی میں رہنے والے ’’مہاجرین‘‘ کا ہو یا پرانے سندھیوں سے ان کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں ہو، بات بہت دور، یعنی پاکستان کی جدوجہد، اس کے قیام اور 1947ء کے خونریز واقعات تک جاتی ہے۔ میرا تعلق ’’آئی ایم کراچی‘‘ نامی ایک سماجی تنظیم سے بھی ہے اور میں نے تقسیم کے بعد سے لے کر اب تک کے کراچی کے بارے میں بہت سوچا ہے۔ کیونکہ میں ماضی میں کراچی کے بارے میں کالم لکھتا رہا ہوں اس لئے میں خود کو اس شہر کا نوحہ گر سمجھتا ہوں۔ میں نے ایک تقریب میں یہ کہا کہ میں نے کراچی کا جشن بھی منایا ہے اور اس کا ماتم بھی کیا ہے۔ اب کیا کرنا ہے تو ’’آئی ایم کراچی‘‘ کی سرخی یہ ہے کہ ’’یہ شہر ہمارا ہے‘‘۔ مقصد کراچی میں امن قائم کرنا اور اس کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کو اس طرح بحال کرنا ہے کہ اس شہر کی تخلیقی قوتوں کو اظہار کا موقع ملے۔ اس ہفتے جو کچھ ہوا ہے کیا اس کے بعد یہ کام زیادہ آسان ہوجائے گا؟ دل کہتا ہے ’’ہاں‘‘… اور ڈر بھی لگتا ہے۔
جو دو سوال میں نے اٹھائے ہیں ان کے تناظر میں ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی نے بھی اس سچائی کو آشکار کیا ہے جس کا ادراک سیاسی اور سماجی علوم کے ماہرین کو ہمیشہ سے ہے۔ وہ یہ کہ شناخت کی سیاست تباہ کن ہوسکتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی بحران کے موقع پر، کسی ایک موڑ پر ہماری کوئی ایک شناخت سب سے مقدم ہوجائے۔ لیکن ہماری پہچان کی نشانیاں تو مختلف ہوتی ہیں۔ شاید آپ کو ولی خاں سے منسوب یہ بات یاد ہوکہ وہ کتنے برسوں سے پشتون تھے۔ کتنے برسوں سے مسلمان… اور کتنے برسوں سے پاکستانی… کہیں آپ کا مسلمان ہونا مقدم ہوگا تو کہیں پاکستانی۔ فرقہ واریت کی آندھی چلے تو آپ کی پہچان کچھ اور ہوگی۔ مطلب یہ کہ کسی ایک پہچان کو سیاست کی بنیاد بنانا بالآخر نقصان دہ ہوتا ہے۔ میں یہ بات صرف کراچی کے ’’مہاجرین‘‘ کے حوالے سے نہیں کہہ رہا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ قومیت پرستی کے دوسرے مظاہر کہاں کہاں ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے خطرات کتنے گمبھیر ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی لیڈر یا جماعت کسی شناخت کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتی ہے تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔ اسی لئے سماجی انصاف کسی بھی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔ کراچی کے ضمن میں اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ یہ شہر اب ایک ایسی سیاست کا طلب گار ہے جس کی بنیاد کسی مخصوص شناخت پر نہ ہو۔ یہ ست رنگی معاشرہ ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مختلف مذاہب اور نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ سیاسی نظریات کا معاملہ الگ ہے۔ آپ قدامت پرست ہوں یا ترقی پسند… اور جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو ان اختلافات کا پرامن تصفیہ کرسکتا ہے۔ ارے ہاں… پاکستان کی متحدہ کے اپنے قائد سے تعلقات ختم کرنے کے عزم پر تو بات رہ گئی۔ چلئے… محض ایک جملہ… یہ نہیں ہوسکتا۔

.
تازہ ترین