• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوجوان حریت پسند کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کی تمام تر وحشیانہ کارروائیوں اور تشدد کے باوجود روز بروز طاقت پکڑتی جا رہی ہے پچھلے تقریباً دو ماہ کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب مقبوضہ وادی کی سرزمین نہتے مگر جذبہ حریت سے سرشار کشمیری نوجوانوں کے مقدس لہو سے سرخ رو نہ ہوئی ہو۔ سری نگر اور دوسرے شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں اور جلسے جلوسوں کے دوران جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس بھارتی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ اور شیلنگ سے اب تک سو سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور چھ ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں ۔ پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ بھارتی مظالم کی طرف دلائی ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اسلامی ممالک کی تنظیم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی دوسرے اداروں نے کشمیری عوام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے بھارت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کا مطالبہ کیا مگر یہ بھارتی حکمرانوں کے نزدیک صرف رسمی باتیں ہیں جب سے ان کو امریکہ کی اشیر باد حاصل ہوئی ہے وہ کشمیر پر بات کرنے سے بھی منکر ہو گئے ہیں اس کی بجائے وہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان کی باتیں کرنے لگے ہیںکراچی میں اپنے ایجنٹوں اور پاکستان مخالف عناصر کی مدد سے بھارت ایسی صورت حال پیدا کرنےکی کوشش کر رہا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی حالت زار سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے اور افغانستان کی سرحد سے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملوں کی کھلی چھٹی مل جائے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو بھارت کی اس مذموم حکمت عملی کا پوری طرح احساس ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس مرتبہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خود پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے پاکستان نے اندرون اور بیرون ملک اپنے سفارتخانوں کو بھی متحرک کیا ہے جو متعلقہ ممالک میں مسئلہ کشمیر اور اس کے حوالے سے خطے کے امن کو لاحق خطرات کو اجاگر کر رہے ہیں یہ سب کوششیں اپنی جگہ درست ہیں مگر عوامی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی انہیں ان کا پیدائشی حق دلانے اور بھارت کے خطرناک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی موجودہ لہر نے اس کے لئے انتہائی موافق اور موزوں موقع فراہم کیا ہے بھارت کے پاس جموں و کشمیر پر تسلط برقرار رکھنے کے لئے کسی قسم کا کوئی جواز موجود نہیں عالمی طاقتوں کی مصلحتیں کچھ بھی ہوں عالمی ضمیر بہر صورت کشمیریوں کے حق کو تسلیم کرتا ہے اس لئے بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی بجائے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو جنگ کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ پاکستان نےہمیشہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا جو مذاکرات یاسفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہےبھارت اس کے لئے تیار ہے نہ آسانی سے تیار ہو گا اس لئے کشمیریوں کی مدد کے لئے پاکستان کو ایک لمبی سفارتی جنگ لڑنا ہو گی اوربین الاقوامی دبائو کے ذریعے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ہو گا۔
آزاد کشمیر کے انتخابات میں پاکستان کی حکمران جماعت کی کامیابی خصوصاً ایک منجھے ہوئے سفارت کار سردار مسعود خان کے صدر ریاست کے طور پر منتخب ہونے سے ایسی سفارتکاری کا پر پیچ راستہ ہموار ہو گیا ہے سردار مسعود خان آزاد کشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے بڑے بھائی سردار میر عالم خان کے پوتے صوبیدار عبداللہ خان کے بیٹے، سابق ڈی آئی جی آزاد کشمیر سردار حمیداللہ خان انگلینڈ میںمقیم ممتاز مصنف و مورخ سردار عبدالرحمان اور حبیب بنک کے سابق ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ سردار بشیر احمد خان کے سگے بھتیجے ہیں۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم خان رشتے میں ان کے چچا لگتے ہیں اس حوالے سے وہ آزاد کشمیر کے ایک ممتاز خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی حقیقی پہچان سردار محمد ابراہیم خان کے حوالے سے سیاست ہی ہے وہ خود بھی زمانہ طالب علمی میں طلبا سیاست میں بہت سرگرم رہے ۔ حسین شہید ڈگری کالج راولاکوٹ میں وہ ایک متحرک اسٹوڈنٹ لیڈر تھے، پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اےکرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ بطور صحافی ریڈیو پاکستان سے منسلک رہےپھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بطور لیکچرر بھی کام کیا۔ 1980ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی کئی سال تک وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے، بیرون ملک جن ذمہ دار مناصب پر انہوں نے کام کیا ان کی فہرست بہت طویل ہے انہوں نے چین اور امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے طور پر بھی قابل قدر خدمات انجام دیں اس دوران دنیا کے کئی بااثر رہنمائوںاور سفارت کاروں سے ان کے رابطے قائم ہوئے جو ذاتی تعلقات میں بدل گئے ان کا تعلق آزاد کشمیر کے مردم خیز خطے راولاکوٹ سے ہے جہاں کے لوگوں نے ڈوگرہ راج میں آزادی کے لئے لڑتے ہوئے زندہ اپنی کھالیں کھینچوائیں خود کشمیری ہونےکے ناطے بین الاقوامی افق پر اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران ان کا خصوصی موضوع ہمیشہ کشمیری عوام کا حق خود ارادیت ہی رہا اس حوالے سے انہوں نے کشمیریوں کی آواز دنیا کے تقریباً ہر گوشے اور ہر فورم پر اٹھائی۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے صدر کی حیثیت سے وہ پوری ریاست کی آواز اور تحریک آزادی کی علامت ہیں۔آزاد کشمیر کے سیاسی و انتظامی نظم و نسق کے ذمہ دار وزیراعظم راجہ فاروق حیدر ہیں جو خود تحریک آزادی کے ایک عظیم رہنما راجہ حیدر خان کے صاحبزادے ہیں سردار مسعود خان بطور صدر محض آئینی سربراہ ہوں گے ۔
لیکن انہیں صرف رسمی صدر بنانا کشمیری عوام اور تحریک آزادی کے مفاد میں نہیں ہو گا آزاد حکومت جموں و کشمیر کا قیام اس دعوے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ یہ پورے جموں و کشمیر کی نمائندہ اور آزاد کشمیر تحریک آزادی کابیس کیمپ ہو گا مگر بعد کے حالات و واقعات نے اس حکومت اور علاقے کو محض ایک انتظامی یونٹ کا درجہ دلا دیا۔ بین الاقوامی طور پر یہ کوئی تسلیم شدہ ریاست ہے نہ کسی عالمی ادارے یا فورم میں اس کی نمائندگی ہے۔
کے ایچ خورشید مرحوم نےاسے تسلیم کرانے کا معاملہ اٹھایا جسے پاکستان کی مقتدر قوتوں نے خود مختار کشمیر کی جانب پیش قدمی سمجھ کر مسترد کر دیا حالانکہ فلسطین سمیت دنیا کی کئی محکوم قوموں کی آزادی کی تحریکوں نے عالمی برادری سے اپنا وجود تسلیم کرا کے مختلف ملکوں میں اپنے نمائندے بھی مقرر کئے اور بین الاقوامی سطح پر مہمیں بھی چلائیں آزاد کشمیر کو یہ حیثیت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہی لگتا ہے کہ سردار مسعود خان کے طویل سفارتی تجربے، بیرون ملک وسیع تعلقات اور علم و دانش سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکے گا اور وہ محض رسمی ملاقاتوں اور تقریبات میں مہمان خصوصی بننے تک محدود ہو کر رہ جائیں گے، وزیراعظم نواز شریف کو جو خود بھی اپنے کشمیری پس منظر پر فخر کا اظہار کرتے ہیں سوچنا ہو گا کہ سردار مسعود خان سے تنازع کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کس طرح لیا جا سکتا ہے اوروہ کشمیری عوام کے نمائندہ کے طور پر کس طرح بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کر سکتے ہیں زیادہ مناسب یہ ہے کہ انہیں وسیع اختیارات کے ساتھ اپنا لائحہ عمل خود طے کرنے دیا جائے اور حکومت پاکستان اس پر عملدرآمد کے لئے ان کی مکمل تائید و حمایت کرے۔ پاکستان بھارت کی چالبازیوں اور ستم رانیوں کے مقابلے کے لئے یہ سفارتی جنگ جتنی جلد شروع کرے اتنا ہی ملک و قوم اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کے لئے فائدہ مند ہو گا۔


.
تازہ ترین