• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں مکمل امن کی بحالی کا نادر موقع
سیاسی عسکری قیادت نے کہا ہے، کراچی آپریشن کے مثبت اثرات ضائع ہونے دیں گے نہ ملک غیر مستحکم کرنے کی اجازت۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ سیاسی عسکری قیادت ایک ہو کر کراچی کو سیاسی کچرے سے صاف کررہی ہے اور اب وہ اس دو ر میں داخل ہوگئی ہے کہ کراچی کا امن تباہ کرنے والوں پر ہاتھ ڈال سکتی ہے اور حالات اس قدر سازگار ہیں کہ سب کچھ بے نقاب ہو کر سامنے آگیا ہے۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کا ضامن یہ اختیار ہے کہ کسی پر بھی جال پھینکا جاسکتا ہے ، سندھ کی سیاست اور زمین کو بعض غداروں نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے، رینجرز اب بے تکان بغیر کسی رکاوٹ کارروائیاں کررہی ہے، انہیں حکومت پاکستان کا پورا تعاون حاصل ہے، ہم کہتے چلیںکہ بڑے بڑے ڈرامے اور ہتھکنڈے سامنے آئیںگے لیکن کسی کی وقتی یقین دہانی کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے۔ ملک کے عوام سیاسی عسکری قیادت کے ساتھ ہیں اور کراچی کو امن کا گہوارہ دیکھنے کے لئے بیتاب، اس لئے اب موقع ہے کہ مگر مچھوں سے پورے سندھ کو پاک کیا جائے، جو خود کو سندھ کی سیاست کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑی سیاسی قوت ہیں ، اس لئے ان کو نہیں چھیڑا جاسکتا یہ خوش فہمی جب تک دور نہیں کی جائے گی کراچی میں مکمل امن قائم نہیں ہوگا۔ اب اس میں کوئی شک نہ رہا کہ بیرونی دشمن ا ندرونی دشمنوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، سارے ثبوت اور شواہد مل چکے ہیں۔ اب کسی رو رعایت کی کوئی گنجائش نہیں، بیدرد عناصر کا قلع قمع بیدردی سے کرنا ہوگا اور سیاسی مسخروں کی یقین دہانیوں کا اعتبار کیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭
ہرزہ سرائی
کسی شخصیت کے بارے میں ہرزہ سرائی پر طوفان آجاتا ہے لیکن پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو ایک معمہ بنا کر ہرزہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ا یسا حربہ استعمال کیا جاتا ہے کہ قوم مطمئن ہوجاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ غداروں کو قرار واقعی سزا مل گئی ہے جبکہ درحقیقت یہ سارا ڈرامہ غداروں کو تحفظ فراہم کرنے اور عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے رچایا جاتا ہے۔ ہرزہ سرائی کی ایک قسم وہ طرز حکمرانی بھی ہے جس نے وطن عزیز کو رہنے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ یہ کھوکھلے سیاسی بیانات اور حکمرانوں کی بے بنیاد لن ترانیاں ہرزہ سرائی نہیں تو اور کیا ہیں، انہی ہرزہ سرائیوں کا بھیانک نتیجہ ہے کہ یہاں صرف’’میں ‘‘ ہے’’ تو‘‘ نہیں ہے اور جب منعفت صرف میں کی ہوگی تو کومحروم رکھا جائے گا تو دولت چند بڑے بڑے پیٹوں میں جمع ہو کر رہ جائے گی اور تو کا پیٹ قل ہواللہ پڑھے گا۔ یہ ہرزہ سرا یعنی سیاسی خواجہ سرا صرف اپنے لئے سوچتے ہیں، ان کی میں تروتازہ اور خودی مرچکی ہوتی ہے، اس لئے ان کو شدید گرمی 12، 12 گھنٹے بجلی سے محروم عوام کی تکلیف کا احساس تک نہیں ہوتا، ہم لکھنے والے بھی بہت دور کی کوڑیاں اس لئے لاتے ہیں کہ ہماری میں کو تسکین ملے کہ ہم کتنے بڑے دانشور ہیں، یہ بھی لکھی لکھائی ہرزہ سرائی ہے، جب تک ہم ہرزہ سرائی کی ان جملہ اقسام کے طلسم سے نہیں نکلتے مساوی خوشحالی کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔ سزا یہاں بےگناہ عوام کو ستر برسوں سے دی جارہی ہے، ملک کے عیاروں غداروں کو کبھی نہیں ملی ، ملکی دولت کے ذریعے قوم نہیں غنڈے پالے جاتے ہیں، اس لئے کسی محلے میں کوئی زیادتی ہورہی ہو، کوئی ان غنڈوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا، یہ گلی محلوں میں فیکٹریاں چلاتے ہیں خوف کے مارے کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔
٭٭٭٭٭٭
سیاست کی مقدار کچھ زیادہ نہیں ہوگئی؟
کہتے ہیں ہر چیز کی زیادتی بری ہے اور بالخصوص جب حد سے گزر جائے تو مضر صحت ہوجاتی ہے۔ وطن پاک میں سیاستدان بننے کے لئے دولت کی فراوانی درکار ہے اور جعلی ڈگری تو مل ہی جاتی ہے۔ ہماری سیاست میں چند ایک غریب بھی غریبوں کو امیر بنانے کے بہانے گھسے تھے، خود امیر ہوگئے غریب کو ہنوز اپنے پیچھے لگا رکھا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کس کوالٹی کی ہوگی جہاں بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض ووٹ ملتا ہو، پولنگ کے روز ہمارا وہ طبقہ ووٹ ہی نہیں ڈالتا جسے نظام کی خرابی کی بہت زیادہ شکایت ہوتی ہے۔ ہمارا یہی سمجھدار پڑھا لکھا اور لیڈر کی پہچان رکھنے والا طبقہ بھی پورے زور شور سے ووٹنگ میں حصہ ڈالے تو ہمارے عوام کے اعصاب پر نااہل منعفت پرست سیاسی لیڈران سواری نہ کرسکیں۔ یہ جو سسٹم ظلم اور نااہلی کا ملغوبہ ہے ہمارا اپنا لایا ہوا ہے اور خود کردہ لاعلاج نیست، حکمرانوں سے گلہ کرنے سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اگر ہمیں صادق و امین قیادت نہیں ملتی تو سرے سے و وٹ ہی نہ ڈالیں یا جن کو منتخب کریں ان سے کام لینے کا وہ سلیقہ سیکھیں جو ترقی یافتہ قومیں اختیار کرتی ہیں کہ اگر وزیر صحیح کام نہیں کرتا کرپٹ ہے تو اسے گھر بھیجنے کے لئے ایک ہوجائیں، ظلم پر خاموشی بھی تو ظلم ہے، اگر ظالم کے خلاف چند افراد اٹھیں گے تو ظالم حکمران ان کو کھڈے لائن لگانے میں دیر نہیں لگائے گا، ہم انہی لیڈروں کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں اپنے لئے نہیں نکلتے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں رہنے کے حالات نہ رہے، جسے موقع ملتا ہے ظلم کی بستی سے ہجرت کرجاتا ہے۔ سیاست اس قدر عام ہوگئی ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اسمبلی پہنچ جاتا ہے، کام کا آدمی پہنچ ہی نہیں پاتا۔ ہمیں سیاسی مخلوق کو کم کرنا ہوگا اور غلط افراد کو آگے آنے سے روکنا ہوگا، اگر لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر پوری قوم 24گھنٹے کا الٹی میٹم دیتی تو آج یہاں کب سے توانائی بحران کا خاتمہ ہوگیا ہوتا، مگر بکھری ہوئی بھیڑ بکریاں کب گڈ گورننس لاسکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
برسات خدا حافظ کہتے کہتے
٭....چوہدری شجاعت، وطن کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی برداشت نہیں کرسکتے۔
چوہدری صاحب یہ ہرزہ سرائیاں کسی طوفان کا پیش خیمہ ہیں، ملک کی سلامتی کی جنگ آپ لڑتے رہے ہیں اب پھر ایک ایسے متحدہ سیاسی یلغار کی ضرورت ہے کہ وطن دشمن جو سیاسی برقع پہن کر وطن کے استحکام سے کھیل رہے ہیں وہ نیست و نابود ہوجائیں، وطن ہوگا تو سیاست ہوگی، اقتدار ہوگا ورنہ سب کچھ ہم سمیت ملیا میٹ ہوجائے گا۔
٭....قائم علی شاہ، ایم کیو ایم پر پابندی لگائی گئی تو سندھ حکومت فیصلے کا ساتھ دے گی۔
اپنا وجود محسوس کرانے کا شکریہ۔
٭....یاسمین راشد تحریک انصاف، ن لیگ کے اقتدار کے دن گنے جاچکے۔
آپ کو گنتی بھی آتی ہے اور وہ بھی کسی کے اقتدار کے دنوں کی؟
٭....پیر اعجاز احمد، فاروق ستار کا اعلان ڈرامہ ہے۔
سیاسی عسکری قیادت سے کہیں نا!
٭....پاکستان کو نااہلوں سے پاک کیا جائے، ہر شعبے میں نااہلی کو الیفکیشن بن گئی!
٭....اکیڈمیوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کے لئے ایک ضابطہ بنایا جائے اور صرف رجسٹرڈ اکیڈمیاں ہی چلنے کی مجاز قرار دی جائیں۔
اکیڈمی کے قیام کا ایک معیار وزارت تعلیم مقرر کرے جو تقاضے پورا کرے اسے ہی اکیڈمی کا درجہ دیا جائے ،فیسوں کا تعین بھی محکمہ تعلیم کرے۔


.
تازہ ترین