• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں تبدیلی یا انقلاب کے بارے میں سوچنا کچھ قبل از وقت ہے۔ مگر پاکستان بدل رہا ہے۔ پہلے اس ملک میں صرف اصول ہوتے تھے پھر اصولوں کو بچانے کے لئے قانون کی ضرورت محسوس کی گئی۔ افلاطون (PLATO) قانون کے بارے میں کہتا ہے۔
’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں صرف کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں جبکہ بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں‘‘۔
اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، کیڑے مکوڑوںکا یہ ملک قانون کے ہاتھوں بے بس نظر آتا ہے۔ ایک شخص آپ کو بلاوجہ گالی دیتا ہے وہ گالی اور ہرزہ سرائی دوسرے لوگ سنتے ہیں اور اس کو ہلاشیری دیتے ہیں۔ قانون دیکھ نہیں سکتا آجکل صرف سنتا ہے۔ قانون کی سماعت کمزور ہے۔ معاملہ ضابطوں کے سپرد ہو جاتا ہے۔ پھر سیاست شروع ہوجاتی ہے اور سب کو معلوم ہے سیاست نام ہے دروغ گوئی اور حیلہ سازی کا۔ اگرچہ سیاست کرنے والے لوگ سیاست دان اصول اور قانون کے حاشیہ بردار ضرور ہوتے ہیں۔ مگر ایک بڑی حیثیت میں مروجہ قواعد و ضوابط ان پر عائد ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔
یہ سب کچھ قصر جمہوریت کے ایوانوں میں ہورہا ہے۔ جمہوریت نے ایوان کو مضبوط کر دیا ہے۔ مگر گھر کو برباد کردیا ہے۔ ایوان کے چوب دار جمہوریت کے خاصہ دار ہیں۔ ان کو مکان کے مکینوں سے کوئی غرض اور واسطہ نہیں ہے۔ گھرکے چوکی دار جو بہت حساس اور فرض شناس ہیں۔ عجیب سی بے بسی کا شکار ہیں مگر اصول اور قانون نے ان کوپابند کر رکھا ہے۔ ہماری خوش مزاج سرکار کی بے خبری ایک بڑی خبر ہے۔ کار سرکار کے مہا ولی وزیر خزانہ اسحاق ڈار عہد حاضر کے بہت بڑے معیشت دان کی حیثیت میں ملک کی معیشت کو مضبوط تر بنانے میں قرضوں کا عظیم الشان بم تیار کر چکے ہیں۔ جس طرح سے ہم پاکستانی جس ملک میں رہتے ہیں وہ روس سے دس گنا چھوٹا ہے مگر اس کا نہری نظام روس سے تین گنا بڑا ہے۔
یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے حوالہ سے دوسرا۔ خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا۔ پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں۔ غرض کہ ہم کئی دیگر ممالک سے بہتر تصور کئے جاسکتے ہیں۔ گندم کی پیداوار میں براعظم افریقہ سے زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی تانبے کے جو ذخائر پنجاب میںدریافت کیے ہیں اس کے بعد دنیا میں ہمارا نام پہلے دس ممالک میں آچکا ہے یہ تمام بشارتیں سرکار وقت کے اہم لوگ دیتے نظر آتے ہیں جو جمہوریت کے رکھوالے اور قصر جمہوریت کے چوب دار ہیں۔ مگر دوسری طرف سب سے حیران کن اور پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ اکثر لٹیرے سیاست دانوں کی پیداوار میں ملک کو خودکفیل بنا رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہے یہ سب کچھ عوام کے اعمال کے باعث ہورہا ہے۔ اس سلسلہ میں قدرت بالکل مداخلت نہیں کرتی۔ اصل میں یہ ان بندوں کا ملک ہے جو اللہ کے بندے نہیں اور ان میں انسان بننے کی ہمت اور سکت بھی نہیں۔ اللہ اپنے بندوں کا رزق ضرور مقرر کرتا ہے مگر اللہ اپنےبندے کو سوچنے اور سمجھنے کی آزادی دیتا ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی آزادی نے ہمارے حاکموں کو مغرور اور گھمنڈی بنا دیا۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنے لگتے ہیں۔ ایک زمانہ میں ملک کی معیشت میں بچت کا فارمولا سب سے زیادہ مفید خیال کیا جاتا تھا۔ مگر اب ترقی کا فارمولا قرضوں کی بھرمار ہے۔وہ وقت بھی میاں نوازشریف کا تھا جب ان کی تصویر کے ساتھ اشتہار چھپتا تھا۔
’’اب کوئی رکاوٹ نہیں بلا کسی خوف کے اثاثے ملک میں رکھیئے غیروں کی بجائے اپنے ملک کو فائدہ پہنچائے۔ ادائیگیوں اور زرمبادلہ کے نظام میں حکومت کی انقلابی اصلاحات سے بھرپور استفادہ کیجئے‘‘
بنک دولت پاکستان نے نہایت منافع بخش فیڈرل انوسمنٹ بانڈز جاری کئے منافع کی شرح تین سال کے لئے 13 فیصد، 5سال کے لئے 14 فیصد 10 سال کے لئے 15 فیصد تک تھی۔ ان کی بھی نیلامی کی گئی اور اب قومی بچتوں کے نظام کو دیکھ لیں۔ بنک دولت پاکستان آئی ایم ایف کی چاکری کرتا نظر آتا ہے۔ لوگوں کی بچتوں پرمنافع کی شرح کم سے کم تر کی جارہی ہے۔ حکومت بھی کوئی بچت کرتی نظر نہیں آتی۔ آئی ایم ایف کے قرضوں نے ملک کو غیروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے، سیاست دان تو باری باری کے کھیل کے بعد ضرور رخصت ہو جائیں گے مگر عوام پر جو گزرے گی اس کی کسی کو خبر ہے۔ ایسے میں جب دل جلے اور دیگر لوگ لکھتے ہیں تو سرکار کو کیوں برے لگتے ہیں۔
رہزن ہے میرا، رہبر، منصف ہے میرا قاتل
سہ لوں تو قیامت اور کہہ دوں تو بغاوت ہے
اصل میں جب کسی طاقتور کو اس کے جرم کی سزا نہیں ملتی تو وہ سزا پورے معاشرے پر تقسیم ہو جاتی ہے، اور یہ ہی سب کچھ ہمارے ہاں بھی ہورہا ہے۔ عوام کی خواہشات کا انت نہیں۔ مگر بداعمالی میں وہ سب سے آگے ہیں، جب اللہ نےا عمال کے معاملہ میں بندے کو آزاد کردیا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہورہا ہے
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست بلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصہ کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
ابھی تو اپنے حصہ کا دیا جلانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اندھیرا اتنا ہے کہ بندہ اندھا معلوم ہوتا ہے، اندھیرے کی وجہ قصر جمہوریت کی روشنی ہے جس نے ملک بھر میں اندھیر مچا رکھا ہے اس اندھیرے نے لوگوں کو مایوس سا کر رکھا ہے۔
قصر جمہوریت سے عجب عجب سی خبریں آرہی ہیں۔ دروغ گوئی بازبان راوی کہ ملک کو وطن پرست وزیراعظم کی ضرورت ہے، کیا ہمارا وزیراعظم وطن پرست نہیں ہے، پھر ملک کے جواں سال سیاست دان بلاول زرداری بھٹو کا نعرہ ’’مودی کا جو یار ہے وہ ہی غدار ہے‘‘ کس کے لئے ہے، کشمیر میں انتخابات کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کے لئے رواداری نظر نہیں آئی کراچی کے معاملات، الطاف حسین کی جسارت، ایم کیو ایم کی مروت، نواز لیگ کی مساوات، پیپلز پارٹی کی لگاوٹ، جماعت اسلامی کی بغاوت، کچھ نام نہاد قوم پرستوں کی تنگ نظری نے ملک کی سیاست کو گرما رکھا ہے۔ ہمارا دوست چین پریشان ہے کہ کس پر اعتبار کرے۔ چین کی راہداری کا منصوبہ ہماری سیاست کے غنڈوں کے بیچ بدنام ہورہا ہے۔ میاں صاحب وزیراعظم پاکستان کی صحت ان کی کابینہ کے نخروں کی وجہ سے قابل تشویش ہے۔ کیا کراچی اور سندھ کی سیاست ملک میں کوئی طرح ڈالنے جارہی ہے ملک میں قانون مکڑی کا جالا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے یا اس جال کو اتنا مضبوط کرنے کی ضرورت ہے یا اس جال کو اتنا مضبوط کردو کہ کوئی طاقت ور اس کو پھاڑ نہ سکے۔ معاملہ حساس ہے۔


.
تازہ ترین