• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں عوام کے لیے معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی بلاشبہ حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے، لیکن زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی پچھلے کئی عشروں کے دوران سرکاری سطح پر بری طرح نظر انداز ہوتا رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں میں بنائے جانے والے اعلیٰ درجے کے بیشتر اسپتال بھی عدم توجہ ، بدنظمی اور کرپشن کا شکار ہو گئے جبکہ عوامی ضرورت کے مطابق نئے اسپتالوں کی تعمیر عمل میں نہیں آئی۔ اس صورت حال سے خدمت کے جذبے سے یکسر خالی، خالصتاً تجارتی مقاصد کے لیے بنائے جانے والے نجی اسپتالوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ڈاکٹروں کی فیسیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور نت نئے لیبارٹری ٹسٹوں کے اخراجات بڑھتے چلے گئے جس کی بناء پر معیاری علاج معالجہ عوام کی دسترس سے باہر ہوگیا۔ان حالات کے پیش نظرصحت کے شعبے میں ماضی کی مسلسل کوتاہیوں کے ازالے کے لیے کوئی بڑا اقدام ناگزیر تھا اوروزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات سے پہلے اٹھارہ ماہ کی مدت میں 39 جدید ترین اسپتالوں کی تعمیر کا حکم دے کر یہ قدم اٹھالیا ہے۔ ملک بھر ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی خاطربنائے جانے والے ان اسپتالوں کی تعمیر اور انہیں جدید آلات اور سہولتوں سے آراستہ کرنے پرتقریباً ایک سو دس ارب روپے خرچ ہوں گے ۔ وزیر اعظم نے یہ حکم جمعہ کو صحت کی سہولتوں سے متعلق ایک اجلاس کے بعد دیا جس میں انہیں اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔اجلاس میں 1970ء سے اب تک کے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ آبادی میں اضافے کے تناسب سے عوامی سطح پر طبی سہولتوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لہٰذا وزیر اعظم نے اسلام آباد میں چھ سو بستروں والے تین اسپتال اور ملک کے باقی حصوں میں پانچ سو بستروں والے دس اور ڈھائی سو بستروںوالے بیس اسپتالوں کی تعمیر کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کے گائنی اسپتال پر دوبارہ کام شروع کرنے کی ہدایت کی جو صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کی بناء پر بند کردیا گیا تھا تاہم اب اس اسپتال کو وفاقی حکومت ہی ڈیڑھ سال کی مدت میں مکمل کرے گی اور اسی کے زیر انتظام اسے چلایا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسلام آباد میں دو مزید اسپتالوں کے لیے جگہ کی منظوری بھی دی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی سو سو بستروں کے پانچ اسپتال تعمیر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ اسپتالوں کی تعمیر کی پیش رفت کی نگرانی ذاتی طور پر کریں گے۔اسپتالوں کے لیے جگہ کے انتخاب کے حوالے سے وزیر اعظم نے بجا طور پر بلوچستان، اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، خیبر پختون خوا اور فاٹا کے پسماندہ علاقوں کو ترجیح دینے کی تاکید کی جہاں غربت زیادہ اور علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے مطابق ان اسپتالوں کی اٹھارہ ماہ میں تعمیر یقینی بنانے کے لیے پیش رفت کا یومیہ جائزہ لیا جائے گااور اس مقصد کے لیے ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر کمپنی قائم کی جائے گی جبکہ ان کے لیے فنڈز کی فراہمی وزیر اعظم آفس اور وزارت خزانہ کے باہمی تعاون سے کی جائے گی۔ یہ امر یقینا خوش آئند ہے کہ معیشت میں بہتری اور استحکام کے ساتھ ساتھ حکومت عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہی ہے جس کا اظہار وزیر اعظم کے ان الفاظ ہوتا ہے کہ ’’ ہم معاشی ترقی، توانائی میں خود انحصاری اورانفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے ثمرات کو غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مستحکم اور یکجا کررہے ہیں۔‘‘ملک بھر میں محض آئندہ ڈیڑھ سال میں اتنی بڑی تعداد میں جدید اسپتالوں کی تعمیر کے اس فیصلے کے ساتھ ساتھ تعمیر کے بعد انہیں بدنظمی اور کرپشن سے بچانے کیلئے ان کی مستقل نگرانی کا قابل اعتماد نظام قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں قائم موجودہ سرکاری اسپتالوں اور شفاخانوں کی اصلاح اور ان کے نظام کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جانی چاہئے تاکہ ان سے بھی عوام کو معیاری طبی سہولتیں کسی مشکل کے بغیر فراہم ہوسکیں۔
.
تازہ ترین