• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہ اگست ختم ہوا چاہتا ہے، یہ ’’ماہ پاکستان‘‘ ہر سال ہم پاکستانیوں کو رسماً ہی سہی یاددلاتا ہے کہ’’ ہم پاکستانی ہیں‘‘ جن کے بزرگ ’’ہندوستانی مسلم‘‘ تھے جو اپنے علیحدہ قومی تشخص پر یہ ملک بنا کر ہمارے حوالے کرگئے اور اب اس مملکت کا ہر شہری بلا امتیاز مذہب، زبان، علاقہ و نسل پاکستانی ہے جس نے قیام پاکستان کے ارفع مقاصد کے مطابق اس ملک کو چلانے اور بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے قلم و کتاب ، دلیل و ابلاغ اور دیانت و ایثار کی اعلیٰ انسانی اقدار سے یہ ملک حاصل کیا۔ یہ سب کچھ امن و آشتی ہے لیکن وہ جو استدلال اور حق خودارادیت کے زور پر بالآخر پارٹیشن آف انڈیا ماننے پر مجبور ہوگئے لیکن جن کے دل میں پاکستان کا وجود روز اول سے کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے، انہوں نے ہمارے بزرگوں کے قیام پاکستان تک کے انتہائی پرامن سفر کو کشت و خون میں تبدیل کرنے کی ٹھانی اور پارٹیشن ہوتے ہوتے رخنہ ڈال کر فساد کیا اور جاری رکھنے کی بنیاد ڈالی۔ برصغیر سے رخصت ہوتی فرنگی حکومت اور نئی دلی میں سیکولر ازم کے نام پر قائم ہونے والے ’’برہمن راج‘‘ (بشکل نہرو خاندان) نے مکمل شعوری کوشش(ایک گہری سازش) کے ساتھ کشمیر پر قبضہ کرکے مسئلہ کشمیر کی بنیاد رکھی۔
’’پاکستان‘‘ کو ’’جہادی‘‘ ، ’’شدت پسند‘‘ ، ’’مہم جوئی‘‘ اور گریژن اسٹیٹ کا طعنہ دینے والے پاکستان مخالف بھارت نواز بیرونی دشمنوں اور کچھ اندر کے نمک....’’پاکستانیوں‘‘ پر قیام پاکستان کے وقت نومولود بھی مفلوک الحال مملکت کی یہ سکت عیاں ہوئی تھی کہ جس کشمیر کو بھارت نے اپنی فوج بھیج کر اپنے زیر قبضہ کرلیا تھا، اس سے وہ قبضہ یہ ناتواں مملکت اس وقت بھی چھڑاسکتی تھی جیسا کہ آج کا’’آزاد کشمیر‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے۔ باقی ماندہ(موجودہ مقبوضہ کشمیر) بھی بھارتی افواج سے واگزار کرایا جاسکتا تھا لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا احترام کیا۔ عالمی ادارے کے چارٹر کے دستخط کنندہ ہونے کے ناطے ہم نے پورے کشمیر کی ہوتی فتح کا عمل روک کر ’’سلامتی کونسل‘‘ کو عالمی امن کا نیا اور محترم ذریعہ سمجھ کر اس کا احترام کیا۔ اس پر اعتبار اور اس کی اپیل کو تسلیم کرتے یہ فیصلہ تسلیم کیا کہ کشمیر کا تنازع پر امن طریقے (رائے شماری)سے حل ہو جو اقوام متحدہ کرائے گی۔ بعد ازاں آج تک جو اقوام متحدہ اسے بنانے والوں اور بھارت نے کیا وہ عالمی تاریخ کا ایک سیاہ چیپڑ ہے جس نے قائم ہونے کے ابتدائی سالوں میں ہی عالمی برادری کا اعتبار کھودیاا ور اسے مشکوک پھر غیر موثر اور متنازع بنادیا۔ آج یہ مکمل نہیں تو اپنے قیام کے ابتدائی مقاصد میں تو مکمل ناکام ہے۔ صرف فلسطین اور کشمیر کیس دونوں عالمی برادری کی اس بڑی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں، تاہم اپنے بعض ثانوی مقاصد میں کامیابیوں کے ریکارڈ نےا سے لیگ اف نیشنز کی طرح ختم نہیں ہونے دیا اس میں بڑا کردار اقوام متحدہ کے ترقیاتی اور انسانی خدمات کے اداروں کا ہے لیکن پاکستان نے ابتداء میں ہی خود کو اقوام متحدہ کے چارٹر کا پابند آزمود رکن ثابت کیا، کیا اب حکومت پاکستان کی اتنی سکت ہےکہ وہ عالمی برادری کے تمام ارکان کو ایک خط کے ذریعے اقوام متحدہ کے احترام اور اس کے چارٹر کی پابندی کے حوالے سے اپنے انتہائی مثبت، پرامن اور بھارت کے فسادی رویے کی سچی کہانی سے آگاہ کردے کہ مسئلے کی تاریخ اور فریقین کے کرداروں سے ایک بار پھرعالمی برادری کو آگاہ کرنا پاکستان کابڑا سفارتی چیلنج بن گیا ہے۔ بھارت کے عسکری قید خانے میں زندگی گزارنے والے کشمیریوں کی نئی نسل نے’’کشمیر اور پاکستان‘‘ کے ایک ہونے کی حقیقت دنیا بھر پر آشکار کردی ہے۔ جاری کشمیر تحریک اور پاکستان سے اس کا تعلق تو تحریکی بیانیے’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور نئی دلی کے خلاف جاری پاکستانی پرچم بردار احتجاج ریلیوں سے پوری دنیا پر آشکار ہورہا ہے، پھر بھارت کی اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف مزاحمت ہی نہیں کشمیریوں پر بہیمانہ مظالم بھی، اگر حکومت پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پارلیمان کی کشمیر کمیٹی اس ضمن میں دنیا میں منتخب اراکین کی آگاہی کے لئے پارلیمانی وفود بھیجے تو بیرون ملک پاکستانیوں سے امداد لے لی جائے۔ کتنے ہی پاکستانی اپنی انفرادی حیثیت میں ہر اہم صدر مقام پر اور ان کی تنظیمیں ہر بڑے شہر میں ایسے وفود کے سفر اور قیام و طعام کے بندوبست کرسکتی ہیں یا اس کے لئے فائیو ،سکس اسٹار ہوٹلنگ، سیر و تفریح اور شاپنگ کے لئے فنڈز ہی ہوں گے تو ہی یہ کار ناگزیر انجام ہوسکے گا؟
ایک طرف’’ماہ پاکستان‘‘ میں کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف اور اپنے اجتماعی ارادے کی حقیقت کو دنیا پر حیران کن حد اور انداز میں عیاں کیا ہے تو دوسری جانب سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لہو کی طاقت سے پاکستانیت کی جو لہر پورے ملک خصوصاً بلوچستان میں چلی ہے اس نے ہر طرف اور ہر طرح کے پاکستان دشمنوں پر پاکستان کی حقیقت کو واضح کردیا ہے۔ پاکستان کو توڑنے کی اس کے نئے نقشے بنانے اور اسے بذریعہ دہشت گردی مسلسل عدم استحکام سے دو چار رکھنے کی دو عشروں کی تمام تر سازشوں اور پاکستان دشمنوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود ایک پرامن اور باصلاحیت ملک ، ایک باوقار اور ذمہ دار ایٹمی طاقت، پورے علاقے کے اقتصادی استحکام میں سرگرم ملک کے طور پر پاکستان کی حقیقت چند ماہ میں اتنی ہی آشکار ہوئی جتنی تیاری اس کے دشمنوں نے کی اور اس کے مطابق دہشت گردی کے جتنے حملے اس پر ہوئے۔
جس کسی بدبخت کو اپنی دہشت گردی کے زور پر پاکستان کو گالی بکنے کی جسارت ہوئی، اس نے بھی دیکھ لیا کہ پاکستان کے ہر علاقے کی’’عوامی طاقت‘‘ کار خ پاکستان کی طرف کتنا ہے کہ پاکستان دشمنوں کی عشروں سے ناز برداریاں اور ان کی چھپی اور کبھی چھلکتی غداری کا حشر حد وفا عبور کرتے ہی جس طرح کراچی اور پورے ملک میں نشر ہورہا ہے اس سے پاکستان کی حقیقت کیسے عیاں ہوئی؟ عشروں کی مسلط بت پرستی کی تنابیں، جہاں جہاں تھیں کھل گئیں۔ دہشت کے چھائے بادلوں سے کیسے پاکستان سے وفا کا مینہ برسا ہے۔ یوں اس سال اختتام پذیر ’’ماہ پاکستان‘‘ میں ہی مملکت خداداد کی حقیقت خوب آشکار ہوئی۔
واضح ہے کہ یہ 70ویں سال آزادی میں جاری رہے گی۔ ایسے کہ ساتھ ساتھ بھارت کی ذہنیت بھی بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ وہ عالمی مذمت کے بعد کشمیریوں میں پیلٹ گن اسپرے کے آزادانہ استعمال کے بعد چلی اسپرے (چہروں پر مرچوں کے چھڑکائو) پر آرہا ہے، جس کا اعلان گزشتہ روز کشمیر پر بھارتی موقف کے دفاع میں مکمل ناکام وزیر دفاع راج ناتھ نے کیا ہے۔ ادھر فلیش پوائنٹ (متنازع کشمیر) پر مذاکرات کی پاکستانی دعوت کے جواب میں بھارتی سرکاری رسپانس میں صرف دہشت گردی پر مذاکرات کرنے کی آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
پاکستان اسے قبول کرنے پر غور کرے کہ عالمی جنگی جرائم کے قوانین اور دہشت گردی میں کوئی تعلق ہے تو پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی سنگین نوعیت کی ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے اور اب اس نے پیلٹ گن فائر کے بعد پرامن مظاہرین پر چلی اسپرے کرنے کا سرکاری اعلان کیا ہے۔ ادھر بھارتی بحریہ کا افسر دہشت گردی کی کمانڈ کرتے پاکستانی علاقے سے گرفتار ہوا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشت گردی میں بھارتی ریاستی کارندوں کے واضح ثبوت پر مبنی رپورٹس خود بھارتی میڈیا دے چکا ہے لیکن بھارت اس طرف آنے کے لئے تیار نہیں تو اقوام متحدہ اس کی تحقیقات کرائے، ساتھ ممبئی میں جو دہشت گردی ہوئی جسے بھارتی وزارت داخلہ کا ایڈیشنل سیکرٹری عدالتی بیان میں سرکاری ڈرامہ قرار دے چکا ہے پر بھی پاکستان بات چیت کرکےبھارتی کرتوتوں کو دنیا میں بے نقاب نہیں کرسکتا۔ ایسے میں دہشت گردی پر ہی مذاکرات ہوجائیں تو کیا ہے۔

.
تازہ ترین