• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر محترم جناب ممنون حسین کے حالیہ دورئہ کراچی کے دوران ملاقات کا موقع ملا اُن کے دورئہ تاشقند جس میں پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل ممبر شپ ملی پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ شیڈول سے ایک روز پہلے امام بخاری کے مزار پر حاضری دینے کیلئے تاشقند اور وہاں سے سمرقند پہنچے، اِسکے بعد ازبکستان کے لوگوں نے کئی اور مقامات کی سیر کرائی اور میرے اِس قدم کو سراہا کیونکہ وہ امام بخاری کے مزار پر حاضری کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ویسے بھی ازبکستان کی سرزمین ہیروز سے بھری پڑی ہے، ظہیر الدین بابر، مرزا الغ بیگ، البیرونی، امیر تیمور، علی شیرنوائی جیسے عظیم شخصیات نے جنم لیا۔ صدر ممنون حسین نے بعد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کی جہاں اُن کی ملاقات، چینی صدر شی جن پنگ سے ہوئی جو بہت اچھی اور گرم جوش ملاقات تھی اور پاکستان چین تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اظہار ہوا۔ اسکے علاوہ سب سربراہان سے ملاقات کا موقع ملا، بیلاروس کے صدر تو پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے بہت پُرجوش تھے، صدر صاحب کا کہنا تھا کہ پورے مشرق وسطیٰ کےممالک پاکستان کو دوست سمجھتے ہیں،روسی صدر ولادی میرپیوٹن سے اِس کانفرنس کے دوران کئی دفعہ ملاقات کا موقع ملا۔
بظاہر یہ دیکھنے میں آیا کہ ولادی میر پیوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہیں مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں اس کا اظہار نہیں ہوا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ ذاتی تعلقات اور ریاستی تعلقات الگ ہوتےہیں، دوسرے ملکوں کے جذبات، احساسات کے علاوہ ان ممالک کے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے جو اس تنظیم میں ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اختتام کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات ہوئی اور بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ صدر پیوٹن مذہب کو اہمیت نہیں دیتے، مگر اس پر تعجب ہوا جب انہوں نے میری امام بخاری کے مزار پر حاضری کو سراہا اور کہا کہ آپ کا وہاں کا دورہ اب ایک نظیر بن گیا ہے، اب جو بھی پاکستان سے آئے گا وہ امام بخاری کے مزار پر حاضری ضرور دے گا۔
ویسے ہم پہلے سربراہان کو اِس مزار پر خود لے جاتے تھے اور پاکستان کے صدر نے وہاں جا کر ایک مثال قائم کردی ہے۔ دوسرے ہمارے صدر نے اُردو میں تقریر کرکے اپنی پاکستانیت اور ایک آزاد ملک کے صدر ہونے کا اعلان پہلے سے ہی کردیا تھا، وہ شریک ممالک کو پسند آیا، چنانچہ اِسکو روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے بھی بہت سراہا کہ آپ کی تقریر بہت اچھی تھی، دل میں اتر جانے والی، اِس کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان نے اُن کو یاد دلایا کہ پاکستان اُن کی آمد کا منتظر ہے، انہوں نے گرم جوشی سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کا دورہ ضرور کریں گے اور جلد کریں گے۔ اسکے بعد انہوں نے ایک عجیب بات کہہ دی جس نے صدر کے ساتھ اُن کے ہمراہ وفد کو ششدر کردیا کہ ہم سب مسلمان ہیں، یہ بات اسلئے بھی اسکے مخالف سمت میں تھی جیسا کہ سمجھا جارہا تھا کہ پیوٹن صاحب مذہب سے گریز کرتے ہیں اور وہ اب مسلمان بن گئے ہیں۔ میں نے جب اسپر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ امریکہ جہاں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے تو وہاں امریکہ روس کے خلاف ہر طرح کی طبع آزمائی کررہا ہے، اُسکے گرد گھیرا ڈال رہا ہے، اسکی معیشت کو تباہ کررہا ہے، اُسکے خلاف چومکھی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اُسکے ملک میں تضادات کو ہوا دی جارہی ہے۔ یوکرائن جو اُسکے بغل میں واقع ہے اُسکو مسلح کیا جارہا ہے تاکہ وہ روس کے خلاف کھڑا رہے۔ اگرچہ امریکہ نے سابق روسی صدر گوربا چوف سے یہ وعدہ کیا تھا کہ یوکرائن کا رُخ نہیں کریں گے مگر امریکہ اپنی بالادستی کی خواہش اور اپنی طاقت کے زعم میں اِس طرف مڑ گیا۔ اب روس کا تیل جس پر روس کی معیشت کا انحصار ہے کی فروخت پر ہر طرح کی رکاوٹ ڈال رہا ہے، سستا تیل ایجاد کرلیا ہے، روسی سرحدوں کے قریب نیٹو کے جیٹ طیارے لگائے جارہے ہیں۔ بحراوقیانوس میں امریکہ نے اپنا بحری بیڑا بھیج دیا، جواباً روس کو اپنا بحری بیڑا بحراوقیانوس میں تعینات کرنا پڑا۔ اس طرح وہ روس کی معیشت پر بوجھ ڈال کر تباہ کرنا چاہتا ہے، تاہم روس نے امریکہ کو شام میں روکا ہوا ہے، ورنہ وہ آگے بڑھ کر پانچ ممالک کو توڑ کر کردستان بنانا چاہتا ہے۔ وہاں روس کے فضائی اور بحری اڈے ختم کرنا چاہتا ہے اورساتھ ہی پورے مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کو تبدیل کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد میں لگا ہوا ہے۔ نہ جانے کیوں مسلمان امریکہ کا تختہ مشق ہیں۔ وہ صومالیہ، نائجیریا، مصر، لیبیا، عراق، شام، ترکی، ایران، پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کررہا ہے شاید اس لئے کہ ان ممالک کی سرحدیں تبدیل کی جاسکیں اور معدنی دولت جو اِن ممالک کے پاس ہےاُن پر قابض ہوا جاسکے۔ اب تک اس نے عراق اور لیبیا کے انرجی کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، مصر میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی ہے، ایران کے تیل کے ذخائر پر اُسکی نظر ہے اور ساتھ ساتھ بحر کیسپئن جو ایک زمین بند سمندر ہے اس میں معدنی دولت بے حساب ہے وہ بھی اس کے پیش نظر ہے۔ ایران سے بظاہر دوستی کرلی ہے مگر ایران کے خلاف نبردآزما بھی ہے، ترکی کو عدم استحکام کرنے میں لگا ہوا ہے، اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی سازشوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ ہر طریقہ استعمال کررہا ہے جو مسلمان ممالک کو نقصان پہنچائے، اُن کو عدم استحکام کا شکار کرے۔ داعش خود اس کی پیدا کردہ ہے، جوکہ مسلمانوں کو بے دریغ مار رہی ہے اور جہاں بھی امریکہ کے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں، چاہے وہ فرانس ہو یا جرمنی وہاں وہ اسکے ذریعے حملہ کرا دیتا ہے اور بدنام مسلمانوں کو کرتا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں میں داعش در آئی ہے۔ یعنی اب بھارت کے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا ارادہ ہے، کیونکہ بھارت کے مسلمان انکے مطابق ابھی تک چین سےتھے، وہ بھارتی مظالم کا شکار تو تھے مگر اب وہ ایک عالمی سامراج کی زد میں آئیں گے جو انسانیت کے خلاف ہے، ایسی صورت میں روسی صدر پیوٹن کا یہ کہنا کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ ایک علامتی بیان ہے اورجس نے سارے معاملات کو ایک اصطلاح میں پرو دیا ہے کہ دُنیا کے وہ ملک جو امریکی دہشت گردی، ظلم و ستم، مداخلت، دبائو اور سازش کا شکار ہیں وہ سب مسلمان ہیں۔ چاہے وہ فرانس ہو یا جرمنی، روس ہو یا چین، اگر یہ احساس روس کے سخت گیر مگر متحرک صدر کو ہوگیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کے حامل یورپی ممالک کو بھی کسی نہ کسی وقت یہ احساس ہوجائے گا کہ وہ امریکی بالادستی کے منصوبے اور اُسکے ناجائز دبائو کے تحت دبے ہوئے ہیں، جو یورپی یونین توڑنے میں لگا ہوا ہے اور کسی ملک یا ملکوں کے گروپ کو اِس قابل نہیں چھوڑتا کہ اُسکی بالادستی کو چیلنج کرے۔
اب یہ کہہ رہا ہے کہ 2025ء تک روس اور چین اور چھوٹے ملک پاکستان اور شمالی کوریا مل کر امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کردیں گے۔ خدا خیر کرے اس طرح تو لگتا ہے کہ امریکہ جو پاکستان کے ویسے بھی پیچھے پڑا ہوا ہے، اب زوروشور کے ساتھ پاکستان کے خلاف سازشیں اور کارروائیاں کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسکے جواب کیلئے تیار ہیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستانی قوم بڑی مزاحمت کار ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کا کیسے مقابلہ کرے گی۔

.
تازہ ترین