• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو اپنا منصب سنبھالے ایک ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے ۔ کسی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے یہ بہت مختصر عرصہ ہے لیکن اس عرصے میں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طرز حکمرانی کیسا ہے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ایک ماہ کے دوران کراچی سمیت پورے سندھ کے لوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ صوبے میں حکومت موجود ہے ۔ طرز حکمرانی (گورننس ) کے بارے میں اچھا تاثر پیدا ہوا ہے ۔ مراد علی شاہ میں کام کرنے کی لگن ہے اور لوگوں کو بھی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے ۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سرکاری دفاتر افسران اور اہلکار صبح 9 بجے موجود ہوتے ہیں اور اوقات کار کے دوران لوگوں کو دستیاب بھی ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے سرکاری دفاتر میں اوقات کار کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ میں خود صبح 9 بجے دفتر آؤں گا اور جو افسران اور اہلکار دفتر نہیں آئیں گے ، وہ خود دیکھ لیں ۔ ان کی اس بات سے ہی ازخود نظم و ضبط پیدا ہو گیا ۔ چیف سیکرٹری سندھ نے وقت کی پابندی پر عمل کرانے کے لئے ایک آرڈر جاری کیا اور اسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے ۔ اگر عزم ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہے ۔ اس آرڈر پر عمل درآمد کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ خود نہ صرف صبح 9 بجے اپنے دفتر میں موجود ہوتے ہیں بلکہ افسران کو بھی اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ انہیں کسی بھی وقت فون کرسکتے ہیں ۔ سید مراد علی شاہ افسران کو فون کرتے بھی رہتے ہیں اور اپنے احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹس لیتے رہتے ہیں۔
سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ وہ سندھ میں اچھی حکمرانی کے ایسے معیارات قائم کرنا چاہتے ہیں ، جنہیں بعد میں آنے والے ختم یا واپس نہ کر سکیں اور جنہیں لوگ بوجھ نہ سمجھیں بلکہ ان کے عادی ہو جائیں۔
زیادہ متحرک اور سرگرم وزیر اعلیٰ کی وجہ سے وزراء بھی تیز رفتاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ گزشتہ ایک ماہ سے سندھ کے سارے وزراء صبح سے رات تک دوروں اور اجلاسوں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو دیتے رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بھی ان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے گزشتہ 25دنوں میں صوبے کے 25اضلاع کا دورہ کیا ۔
وہ اسپتالوں میں خود گئے اور وہاں کے حالات اور مسائل کا جائزہ لیا ۔ اسی طرح تعلیم کے وزیر جام مہتاب حسین ڈاہر بھی ہر وقت تعلیمی اداروں کے دوروں پر رہتے ہیں ۔ کھیل اور ثقافت کے وزیروں سردار محمد بخش خان مہر اور سید سردار علی شاہ کی سرگرمیوں سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ محکمے کتنے اہم اور موثر ہیں ۔ ٹیم کا کپتان اگر خود محنت کرنے کا جذبہ رکھتا ہو اور اس میں اچھے نتائج حاصل کرنے کی خواہش ہو تو ٹیم کے ارکان بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں بشرطیکہ ان کی کارکردگی کو سراہا جائے ۔
وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے سید مراد علی شاہ خزانہ اور منصوبہ بندی کے بھی وزیر رہے ۔ انہیں صوبے کے دستیاب وسائل کا اندازہ ہے اور صوبے کی ترقی کے بارے میں ان کا وژن بھی پہلے سے بنا ہوا ہے ۔ اس لئے وزیر اعلیٰ بنتے ہی انہوں نے کراچی اور سندھ کے دیگر اضلاع کے بڑے منصوبوں کے بارے میں فوری طور پر اجلاس منعقد کئے اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے متعلقہ حکام کو ٹائم فریم دے دیا ہے ، جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ منصوبوں کی متعلقہ فورمز سے منظوری کب ہو گی ، ٹینڈرز کب ہوں گے ، کام کب شروع ہو گا اور کب ختم ہو گا۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے معاملات پر بھی وہ خصوصی توجہ دے رہے ہیں ، جنہیں قبل ازیں نظر انداز کر دیا جاتا تھا ۔ اس وقت کراچی سمیت سندھ کے تمام بڑے شہروں میں صفائی کا کام ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور لوگوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ حکومت ان کے مسائل سے غافل نہیں ہے ۔
عام تاثر یہ تھا کہ سید مراد علی شاہ اپنے پیش رو سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں رینجرز کے قیام ، اختیارات اور کارروائیوں کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں ۔ نیب ، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر بھی ان کے تحفظات زیادہ ہیں ۔ سندھ کے دیگر ایشوز پر بھی وہ زیادہ حساس ہیں ۔ لہذا ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین تصادم اور ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔رینجرز کے قیام اور خصوصی اختیارات میں توسیع کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ سید مراد علی شاہ یہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کریں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اب تک کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے ، جس میں یہ کہا جا سکے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین کوئی تناؤ ہے ۔
سید مراد علی شاہ اگرچہ بار بار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں پولیس اور سویلین فورسز کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ خود حالات کو کنٹرول کرلیں، وہ رینجرز کی موجودگی اور کارروائیوں کے حوالے سے ہرممکن تعاون کر رہے ہیں ۔ وہ اگرچہ یہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی اداروں کی جانب سے احتساب کے نام پر کی جانے والی کارروائیاں درست نہیں ہیں لیکن وہ دانشمندی سے سارے معاملات سلجھا بھی رہے ہیں ۔ ان کی ایک ماہ کی حکومت کی سمت درست نظر آرہی ہے اور لوگوں کا بھی اس کے بارے میں تاثر اچھا ہے ۔

.
تازہ ترین