• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ریاست کا نظام و انصرام چلانے کے لئے مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔انتظامیہ کو ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ دیا جاتا ہے ،کیونکہ مقننہ اور عدلیہ کے تمام احکامات پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری انتظامیہ کے سپرد ہوتی ہے۔ جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت انڈین سول سروس(ICS)کے 770افسران میں سے 73مسلمان تھے۔ماسوائے تین کے تمام سول افسران نے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔اس ملک کی باگ ڈور بنانے والے یہی سول افسران تھے۔جنہوں نے بقول قدرت اللہ شہاب کانٹوں سے کاغذو ں کو نتھی کرنے کا کام لیا۔خیموں میں دفتر سجالئے،تھل کے صحراؤں کو با گ و بار بنانے والا۔سمن آبادکی بستی کو سجانے والا،لاہور کے گلبرگ کاخالق ،پی آئی اے کا محسن ظفر الحسن گمنامی کی دبی اس تہہ میں چھپ گیاہے۔واہ رے میرے Unsung Hero۔مگر آج پاکستان میں یہی سول سروس سسکیاں لے رہی ہے۔گزشتہ کئی عرصے سے سول افسران کی ای میلز اور پیغامات موصول ہورہے تھے۔اس لئے طے کیا ہے کہ آج کا کالم پاکستان کی افسر شاہی کے نام کروں۔
پاکستان کی سول سروس سے آج کوئی خوش نہیں ہے۔چاہے سیاستدان ہو،بزنس مین یا عام آدمی ۔سب کو بیوروکریسی سے بہت شکایات ہیں۔ 100برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ملک کی بیوروکریسی آج بھی روایتی تکبر کا شکار ہے۔اپنے آپ کو ایمپریل سول سروس کا وارث سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پبلک سروس کے بجائے پبلک ایڈمن کا ماڈل اپنایا جاتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ آج بھی بیوروکریسی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ریاست کی افادیت بیوروکریسی کے ذریعے ہی نمایاں ہوتی ہے۔میونسپل سروس ہویا امن و امان کی صورتحال،صحت و تعلیم کے شعبہ جات ہوں یا پھر دیگر انتظامی معاملات ،بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ہر دور حکومت میں بیوروکریسی کو بہتر کرنے کے لئے ریفارمز کا بیڑا اٹھایا گیا مگر نتیجہ ہمیشہ صفر رہا۔۔ایوب خان کے جی میں آیا سینکڑوں افسرفارغ کردئیے۔یحیٰی خان کو اپنی خامی تو نظر نہیں آئی مگر تین سو افسر گھر بھیج دئیے۔بھٹو صاحب نے ریفارمز کرنے کی ٹھانی تو 12سروس گروپ ہی متعارف کرادئیے او ر مزید کمال یہ کیا کہ 1200سرکاری ملازموں کوملازمت سے فارغ کیا۔تمام بالا ادوار میں چند "کرپٹ"لوگوں کو نوکری سے فارغ کرکے بیوروکریسی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔مشرف صاحب کے دور میں لوکل گورنمنٹ آرڈر کے ذریعے بہت بڑی تبدیلی لائی گئی۔ پوری سول سروس کے بنیادی ڈھانچے کو ہلاکر رکھ دیا گیا۔ سول سروس آف پاکستان کا سب سے زیادہ بیڑا غرق مشرف کے دور میں کیا گیا۔گزشتہ کئی دہائیوں کا جو آزمودہ نظام تھا اسے ہلاکر رکھ دیا گیا۔جتنا ملک کی سول سروس کو جنرل(ر) مشرف کے دور میں نقصان پہنچا ہے شاید آئندہ 50سالوں میں بھی نہ پہنچ سکے۔یہ جمہوری اور آمرانہ دور کا فرق ہوتا ہے۔اس لئے درست کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر۔بہر حال موجودہ دور کی بات کریں تو وزیراعظم نوازشریف جب سے حکومت میں آئے ہیں ،بیوروکریسی میں اصلاحات پر کئی میٹنگز ہوچکی ہیں۔اور اس دفعہ روح رواں احسن اقبال صاحب ہیں۔لیکن ابھی تک کوئی ایک معنی خیز تبدیلی نہیںلائی جاسکی اور نہ لائی جاسکے گی۔آج بیوروکریسی کے مختلف گروپوں میں جھگڑے چل رہے ہیں۔بلکہ گروپس کے اندر بھی تنازعات ہیںاور افسران عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔معاملہ وفاقی سیکرٹریز میں مختلف گروپس کے کوٹے کا ہو،افسران کی بیرون ملک پوسٹنگ یا پھر پروموشن کا۔سب کچھ عدالتوں میں زیرالتواہے۔درجنوں ایسے سینئر افسران کو جانتا ہوں جن کا زیادہ وقت قانونی بحث میں ،وکیلوں کے دفتر میں یا پھر احاطہ عدالت میں گزرتا ہےجو نہایت قابل افسوس امر ہے۔لیکن اس سب کا سہرا سابق دور حکومت کے چند افسران کے سر ہے۔جب ایک خاتون پرنسپل سیکرٹری نے حاکم وقت کے عزیز کو پروموٹ کرنے کے لئے ایک ہی دن 103افسران گریڈ20سے 21میں پروموٹ کردئیے تھے۔جس پرسپریم کورٹ آ ف پاکستان کو مداخلت کرکے تمام ترقیاں کالعدم قرار دینا پڑیں۔تین سال قبل اس کیس کی سماعت کے وقت مجھے ملکی تاریخ کے اہم کردار جنرل یحیٰی کا دور یا د آگیا جب انہوں نے ایک دن میں غالبا 17جنرل پروموٹ کردئیے تھے تو ایک سینئر جنرل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ ایک دن میں تو اتنے لانس نائیک نہیں بنتے جتنے جنرل بنادئیے گئے ہیں۔بہرحال کہانی یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ خاتون پرنسپل سیکرٹری نے گریڈ 22کی ترقیوں میں بھی ایسا ہی کیا اور اپنے سے سینئر درجنوں افسران کونظر انداز کردیا ۔جس پر نہ صرف عدالت نے مداخلت کی بلکہ گریڈ 22میں ترقی دینے کے لئے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے متاثر ہوگیا اور عدالت نے گریڈ 21میں دو سال کام کرنے کی شرط لازمی قرار دے دی۔
ایک وقت تک ملک میں پی اے ایس(پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ) انتہائی مضبوط گروپ تصور ہوتا تھا۔مگر اب اس گروپ کے سینئر افسران کو اپنے ہی جونیئر افسران سے شکایا ت ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ اچھی شہرت اور سنیارٹی کے باوجو د پوسٹنگ نہیں دی جاتی۔کسی کو شاندار اے سی آر کے اور ایمانداری کے باوجود پروموٹ نہ ہونے کا دکھ ہے۔سینئر عہدوں پر جونیئر افسران لگانے کا برملا تذکرہ کیا جاتا ہے۔عمومی تاثر ہے کہ معاملات حکومت چند منظور نظر افسران اپنی منشا کے مطابق چلارہے ہیں۔وزیراعظم صاحب اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ چاہے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے ہو ںیا پھر مہنگائی پر قابوپانے کا معاملہ،امن و امان میں بہتری لانے کا سوال ہو یا پھر تعلیم و صحت کی اچھی سہولتوں کی عوام کو فراہمی ۔سی پیک کے اہم ترین منصوبوں کی تکمیل ہو یا پھرمعیشت میں بہتری ،سب کچھ بیوروکریسی نے کرنا ہے۔مگر موجودہ صورتحال میں بیوروکریسی سے یہ توقعا ت رکھنا ممکن نہیں ہے۔
قارئین نے سنگاپور کے مشہور وزیراعظم Lee Kuan Yewکے بارے میں سن رکھا ہوگا،جنہوں نے سنگاپور کو ایک پسماندہ ملک سے تبدیل کرکے دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک میں لاکھڑا کیا۔وزیراعظم لی کو بھی بیوروکریسی کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا تھالیکن آہستہ آہستہ انہوں نے بیوروکریسی میں اصلاحات کے ذریعے ایک ایسا ڈھانچہ بنادیا ،جس نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔وزیراعظم لی نے بیوروکریسی کو عوامی خدمت، شفافیت، احتساب، میرٹ،ایمانداری،مرکزیت اور مارکیٹ بیس سیلری کے اصولوں پر استوار کیا۔نوازشریف صاحب! اللہ نے آپ کو تیسری مرتبہ وزارت عظمی کا منصب عطا کیا ہے۔اگر آپ ٹھوس اور بامعنی اصلاحات کرلیں تو آپ کا نام Lee Kuan Yewکی طرح یاد رکھا جائے گا۔لیکن آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ اب مرض کا علاج کسی سردرد کی گولی سےممکن نہیں بلکہ اب مکمل سرجری کی ضرورت ہے۔آپ کو چاہئے کہ یا تو تمام کمرشل اداروں کا پرائیویٹائز کریں یا پھر مارکیٹ سے بہتر ٹیلنٹ تلاش کرکے انہیں اچھی تنخواہیں دی جائیں۔کلیدی عہدوں پر Tenure Posting کرتے ہوئے واضح اہداف مقرر کئے جائیں۔کوشش کریں کہ تمام سروس گروپس کو برابر کے مواقع دئیے جائیں۔حکومت وقت کو کسی ایک سروس گروپ کا حامی نہیں ہونا چاہئے بلکہ قابلیت اور ایمانداری شرط اول ہونی چاہئے۔جبکہ اچھی پوسٹنگ اور پروموشن کے حوالے سے تاثر ہے کہ حکومت کے وفادار افسران کے حصے میں آتی ہے اس تاثر کوبھی ختم ہونا چاہئے۔ سرکاری افسران کو سیاسی وابستگیوں پر مجبور کرنے سے کسی اور کا نہیں بلکہ سسٹم کا نقصان ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین