• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نادرہ کا نام ذہن کے نہاں خانے پر نمودار ہوتے ہی پاکستان اور ہندوستان کی دو خوبرو اداکارائیں قلب و نظر کے سامنے جلوہ آرا ہو جاتی ہیں، لیکن اگر نادرہ کے آخر سے ’’ہ‘‘ نکا ل کر اس کی جگہ الف لگا دیا جائے تو یہ’ نادرا‘پاکستانی شہریوں بالخصوص کراچی میں آباد پختونوں کیلئے ایک گراں مزاج معشوق کا روپ دھار لیتی ہے ،اب یہ بھی مشکل ہےکہ نادرا(NADRA) HEہےیاSHE،اگراسے ہم اتھارٹی سمجھ لیں پھر تو یہ SHE یعنی مونث ہے اور اگر ادارہ مان لیں تو پھر HE یعنی مذکر ہے ، مگر ادارے والی بات البتہ کہیں نظر نہیں آتی... خیر جو کچھ بھی ہے یہ وفاق کی ’منکوحہ‘ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک آمر پرویز مشرف نے نادرا کے ذریعے شناختی کارڈ کی فراہمی کا آسان اور شفاف نظام متعارف کرایا تھا، لیکن آج نام نہاد جمہوری دور میں شناختی کارڈ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جب طالبان صاحبان کی سرگرمیاں عروج پر تھیں تو کراچی میں مقیم قبائلی علاقوں کے پختونوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات درپیش تھیں ،اب جب سے ملا اختر منصور صاحب شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں، تب سے افغان مہاجرین کی شناخت کے نام پر تصدیق عمل کیچھری تلے بندو بستی علاقوں کے پختون بھی آگئے ہیں، کراچی میں مختلف اعتراضات لگا کر ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے جاتے ہیں اور یا پھر ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا فارم بھروا بھروا کر انہیں ایسا ہلکان کر دیا جاتا ہے کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ایسا واقعہ تو ہے نہیں، کہ بقول فانی بد ایونی جس پر صبر کرلیا جائے۔
فانی بس اب خدا کیلئے ذکرِ دل نہ چھیڑ
جانے بھی دے، بلا سے رہا یا نہیں رہا
لیکن نادرا HE ہے یا SHE لیکن چونکہ اس کےبغیر دانہ پانی نہیں چل سکتا، لہٰذا چھیڑنا ہی پڑتا ہے !... اور یوں تھک ہار کے بیٹھ جانے والے پختون پھر نادرا کے در پر آجاتے ہیں۔پختونوں کی مشکلات بیان کرنے کیلئے دفتر کے دفتر درکار ہیں، تاہم ایک مثال دیتے ہیں ، ایک صاحب جن کے شناختی کارڈ پر گائوں اور کراچیکے، دونوں پتے درج تھے، اس لئے ان کے بچے کا کراچی کا ڈومیسائل نہیں بن رہا تھا، لہذاوہ گائوں کا پتہ نکال کر صرف کراچی کا پتہ رکھنا چاہتے تھے، جس کیلئے نادراآفس نے ان سے مکان کے کاغذات طلب کئے، سائل نے بتایا کہ میں والد صاحب کے ساتھ رہتا ہوں، گھر والدصاحب کے نام ہے، ان کے لیز کاغذات لے آتا ہوں، جواب تھا نہیں، کاغذات تمہارے نام ہونے چاہئیں، سائل نے گزارش کی کہ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد سے قبل 1978 میں انہوں نےکراچی سے میٹرک کیا ہے اور ایم اے ، ایل ایل بی تک تمام تعلیم کراچی سےہی حاصل کیہے، اس کے پاس اپنے اوروالدین کے پرانےو نئے شناختی کارڈ، بچوں کے ب فارم، پیدائشی سرٹیفکیٹس1982 میں بنے کراچی کا ڈومیسائل والد صاحب کا اس سے قبل کا کراچی کا ڈومیسائل، والد صاحبکے کراچی میں سرکاری ملازمت، سائل کے کراچی میں ملازمت کے کاغذات سمیت رہائش کے تمام ثبوت موجود ہیں … لیکن اصرار تھا نہیںتمہارے ذاتی مکان کے کاغذات درکار ہیں...یعنی نادرا کے حُسنِ نظر سے باپ کے مکان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیٹا مقامی ہے.... پھر آپ تو جانتے ہیں کہ کراچی میں ایسے محنت کش ہیں جو برسوں سے کرائے پر رہتے ہیں تو وہ تو پھر اس پالیسی کے تحت مارے گئے، کہ اپنے بچوں کو نہ پڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی روزگار فراہم کر سکتے ہیں … اس سے تو حضرت ملا اختر منصور صاحب ہی اچھے نکلے کہ جن کا نہ صرف یہ کہ پاکستانی شناختی کارڈ و پاسپورٹ تھا بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں جائیداد یں بھی تھیں ، وزیر داخلہ نے دراصل اسی واقعہ کی آڑ لے کر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی شناخت کے نام پر پختونوں کیلئے شناختی کارڈ کے حصول کے حوالے سے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ افغان مہاجرین نے بھی کیا قسمت پائی ہے، یہ جب امریکی سامراجی منصوبے کے تحت پاکستان لائے گئے تو اسٹیبلشمنٹ کی لے پالک جماعتیں انہیں اپنا بھائی کہتی تھیں اور اے این پی (اُس وقت این ڈی پی( اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی انہیں افغان بھگوڑے اور اشرار سمجھتی رہیں۔ اب ان دو جماعتوں نے انہیں اپنا بھائی سمجھ لیا ہے تو کل تک بھائی کہنے والی جماعتیں انہیں اشرار ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں … اس سارے منظر نامے میں بالخصوص کراچی میں مقیم پختون نادرا کو اشرار نظر آنے لگے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس کھلی نا انصافی بلکہ جبر پر ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں خاموش ہیں، یہاں تک کہ پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی زبان بھی گنگ ہے۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈر حاجی شاجی گل آفریدی نے البتہ کراچی میں اس سلسلے میں آواز اٹھائی ہے، ایک دوست بتا رہے تھے کہ حاجی شاجی گل آفریدی جب قومی اسمبلی میں فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کرنے یا دیگر پختون مسائل پر بات کرتے ہیں تو بعض پختون اکابرین کے تن من میں انگارے دوڑنے لگتے ہیں کہ دیکھیں ان مسائل پر تو ہماری اجارہ داری ہے ،کسی اور کی جانب سےان مسائل کو نمایاں کرنا گویا ہماری چوہدراہٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ نادرا کے ایک اہلکار سے راقمنے استفسار کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ جو مٹھی گرم کر ے اس کا کام ہو جاتا ہے، پھر نہ تو وزیر داخلہ کے تصدیق عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور نہ ہی لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ راستے بھی آپ ہی کے اے این پی والوں نے بتائے ہیں ! پھر انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ جن دنوں کراچی میں اے این پیجوبن پر تھی کس طرح اے این پی کے ستم پیشہنادرا کے پختون علاقوں والے دفاتر کے باہر کمائی کیلئے منڈلاتے اور درویش باچاخان کی روح کو لحد میں ستاتے … ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے اس سے قطع نظر اگر کسی کو پختونوں کی مشکلات کا اندازہ لگانا ہو تو وہ کراچی میں نثار شہید پارک سمیت نادرا کے ان دفاتر کا دورہ کر لیں جو پختون آبادیوں سے منسلک ہیں۔
خلاصہ امتیاز کے اس کے دکھڑےکا البتہ یہ ہے کہ پختون اپنی پاکستانیت کی شناخت چاہتے ہیں اور سرکار ہے کہ انہیں شناخت دینے کی راہ میں ہزار رکاوٹیں کھڑی کئے جا رہی ہے، وزیر داخلہ صاحب کی خدمت میں ’عرضی‘ یہ ہے کہ جو لوگ چکر پر چکر لگانے کے باوجود شناختی کارڈ کے حصول کیلئے سرگرداں رہتے ہیں یہی اصل پاکستانی ہیں اور جو نہیں ہیں انہیں دوڑ دھوپ کی کیا ضرورت ! انہیں تو شناختی کارڈ وپاسپورٹ گھر بیٹھے مل جاتے ہیں، پختون اس وطن کے ہیں اس لئے وہ صرف اپنی شناخت چاہتے ہیں اور آپ وہ نہیں دے رہے، جبکہ جو اس شناخت یا شناختی کارڈ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے آپ انہیں بغیر شناختی کارڈ کے وزارت عظمیٰ تک دے دیتے ہیں جیسا کہ آپ معین قریشی صاحب پر مہربان ہو گئے تھے.....

.
تازہ ترین