• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت گزشتہ ایک ماہ سے کشمیر میں کرفیو کی آڑ میں کشمیریوں پر مظالم ڈھارہا تھا اور پوری دنیا میں بھارت کے خلاف یو این اوسمیت دیگر ادارے آوازیں بلند کر رہے تھے اور پاکستان میں پانامالیکس کے خلاف حزب اختلاف اکھٹے عدم اعتماد کا ریفرنس لانے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ لاہور میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری دھرنوں کی قیادت کر رہے تھے کہ یکایک متحدہ کے قائد الطاف حسین صاحب نے کراچی میں کارکنوں پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرکے ٹی وی میڈیا کے دفاتر پر حملے کا حکم دے دیا ۔ساتھ ساتھ رینجرز کے خلاف بھی مزاحمت کرنے اور پھر پاکستان کے خلاف کارکنوں سے نعرے لگوا دئیے ۔یہ سب کچھ اتنا آناًفاناً ہواکہ پورا کراچی حیران و پریشان ہو گیا ۔خاص طور پر صدر کے علاقے میں پولیس اور کارکنوں میں بری طرح جھڑپیں ہوئیں اور حالات اتنے بگڑے کہ رینجرز کو مداخلت کرنا پڑی اور فاروق ستار ،عامر لیاقت ، عامر خان اور اظہار الحسن و دیگر کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ شہر کراچی میں لاقانونیت پھیل گئی ۔عوام نے رات بے چینی سے گزاری کیونکہ مہاجروں کے خلاف یہ سازش ہو سکتی ہے کیونکہ مہاجروں نے ہی پاکستان بنایا اس کی خاطر اپنے گھروں سے ہجرت کی اس کیلئے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں وہ کیسے پاکستان کے خلاف نعرے لگا سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے خلاف سندھ میں جئے سندھ کے سربراہ جی ایم سید نے ساری عمر سندھو دیش کیلئے کام کیا ۔بلوچستان میں بڑے بڑے سردار جنہوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی بعد میں پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جس میں بگٹی خاندان ، مینگل اور خان قلات شامل تھے ۔خیبر پختونخوا سے ولی خان نے پختونستان کا نعرہ لگایا ۔ بے نظیر کی شہادت پر پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگے آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔65سال سے پاکستان مخالفت میں سب نے نعرے لگائے حتیٰ کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا الطاف حسین کا کہنا ہے کہ کراچی میں متحدہ کے کارکنوں ، عہدیداروں کی پولیس ، رینجرز کیوں گرفتاریاں کر رہی ہے ۔دوسرے دن متحدہ کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار ، واسع جلیل نے الطاف حسین کے پاکستان کے خلاف نعروں پر معافی مانگ کر متحدہ پاکستان کو لندن سیکرٹریٹ سے الگ کر دیا ۔مگر پھر چند ہی گھنٹوں کے بعد الطاف حسین نے امریکہ میں خطا ب کیا اور پھر پاکستان کے خلاف بیان دیا تو متحد ہ کے یہ عہدیداران اپنے بیانات سے پھر گئے اور کراچی کے مہاجروں کو امتحان میں ڈال دیا ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ کراچی کیا پاکستان کے تمام مہاجرین نہ صرف پاکستان سے محبت کرتے ہیں بلکہ وہ آج بھی پاکستان کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے ۔ان کو کون اور کس کے کہنے پر ملوث کیا جا رہا ہے ۔بدقسمتی سے مرکز اور صوبائی حکومت دونوں پر اسرار طور پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔کیا وہ کراچی کے عوام سے ہمدردی کے بجائے ان کو غدار قرار دے کر مزید ظلم و ستم کرنا چاہتے ہیں ۔پہلے ہی کراچی کے حقوق پر ایک طرف سندھ حکومت قابض ہو چکی ہے تو دوسری طرف دو تہائی ٹیکس ادا کرنے والے شہر پر صرف 21ارب روپے کا بجٹ مختص کر کے کراچی کے دیگر منصوبوں کو ختم کر دیا گیا ہے ۔اربوں روپے اورنج ٹرین، ہری، پیلی اور لال بسوں کے منصوبوں پر لاہور اسلام آباد میں ضائع کئے جا رہے ہیں اور کرپشن کے ذریعے خورد برد بھی کی جا رہی ہے ۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر من مانیاں کی جارہی ہیں اگر کراچی کے عوام کو احساس محرومی سے نہیں نکالا گیا اور یہاں کی سڑکیں گٹر اور پانی کا نظام درست نہیں کیا گیا تو بے چینی اور بڑھے گی اور عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے ۔
سندھ حکومت پورے سندھ میں ناکام ہو چکی ہے۔نئے وزیر اعلیٰ چند دنوں میں ماضی کی طرح بیوروکریٹس کے ہاتھوں تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ کراچی کے میئر سے تمام اختیارات پہلے ہی حکومت سندھ نے لے لئے ہیں کیا وہ جیل سے سڑکیں ٹھیک کرائیں گے اور عوام جیل جا کر اپنی داد اور فریاد پہنچائیں گے ۔متحدہ اور سندھ حکومت کی لڑائی میں کراچی کے عوام متاثر ہو رہے ہیں اوپر سے عید قربان آنے والی ہے۔ کیا پھر شہر بھر میں غلاظت کا ڈھیر لگے گا۔ کون ان کی جان و مال کا محافظ ہوگا ۔پولیس ناکام اور رینجرز کو بے اختیا رکر دیا گیا ہے ۔بڑی مشکل سے فوج و رینجرز نے امن و امان بحال کیا تھا۔ کس کے رحم و کرم پر کراچی کے شہریوں کو چھوڑا جا رہا ہے ۔ایک طرف شہری دوبارہ بھتے کی پرچیاں اور ڈکیتیاں شروع ہونے سے پریشان ہیں دوسری طرف آپس میں لڑا کر شہر کا سکون تباہ کر نے کا اندیشہ ہے ۔کراچی میں وزیر اعظم دن ہی دن میں بحری جہازوں کے افتتاح کیلئے آتے ہیں کیاان پر کراچی کی بربادی کی ذمہ داری نہیں ہے صدر پاکستان کا تعلق کراچی سے ہے ۔کیا وہ بھی بے خبر ہیں ۔کراچی والوں پر کیا بیت رہی ہے ۔کیا یہ سب نورا کشتی ہے جس میں سب حصے دار شریک ہیں ؟

.
تازہ ترین