• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارے ہمسایہ ممالک کو انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔ ہمسایہ ممالک کے اندرونی حالات پاکستان پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں بالخصوص افغانستان اور بھارت کے حالات اور روئیے پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ 70 کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے پاکستان کا بھرپور استعمال کیا اور جب روسی افواج واپس چلی گئیں تو پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کو فرنٹ لائن (Front Line State) کے طورپر استعمال کیا جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کی لہر نے ریاست پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تب سے لے کر اب تک پاکستان کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ امریکہ اور مغرب نے دوسری افغان جنگ میںبھی پاکستان کا بھرپور استعمال کیا اور اب پاکستان کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ دُشمن ملک بھارت کا رول بڑھانے کی کوششیںہو رہی ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچا دئیے گئے کہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی دونوں بارڈرز غیر محفوظ ہو چکے ہیں ۔ افغانستان کے 35 لاکھ سے زائد مہاجرین گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں اس کے باوجود افغان حکومت ہمارے بجائے بھارت کے زیادہ قریب ہے ۔ ہمارا ہمسایہ برادر ملک ایران اور ہمارے درمیان تعلقات میں بھی وہ گرم جوشی نہیں جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں۔ بلوچستان سے پکڑے جانے والا بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیوایران کے ساحلی شہر چابہار میں مقیم تھا ۔ اس ایجنٹ کی ایران میں موجودگی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے نیٹ ورک کا ہونا بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات پر سوالیہ نشان ہے۔ایسے میں چین پاکستان کا واحد دوست ملک ہے جو ہمیشہ سے اور خاص طور پر موجودہ صورت حال میں پاکستان کی بھرپور حمایت اور مدد کر رہا ہے۔ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے فوراً بعد میں نے اپنی متعدد تحریروں میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ بھارت اور مغرب مل کر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ رکوانے کی بھرپور کوشش کریں گے لہٰذا پاکستان کو اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے مربوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جب میں اس خدشہ کا اظہار کر رہا تھا تب پاکستانی میڈیا اور دانشور اس حوالے سے بالکل خاموش تھے۔ شکر ہے چندماہ سے میڈیا اور ہمارے دانشور مختلف ٹاک شوز اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس عظیم منصوبے کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان اور پاک افواج نے مل کر عظیم ترین اقتصادی راہداری منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انتہائی قابل اطمینان اقدامات اٹھائے ہیں اس تمام تر صورت حال کے پیش نظر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اور سلامتی امور کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کرنا ہوں گے یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ ریاست پاکستان اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کا حالیہ دورہ ایران انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں ایران نے پاکستان کو یقین دلایاہے کہ ایران کسی بھی ملک یا گروپ کواپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا اور یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ نہ صرف بلوچستان سے پکڑے جانے والے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی ایران میں سرگرمیوں کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا بلکہ را کے ایران میں ممکنہ نیٹ ورک کے بارے میں معلومات بھی فراہم کی جائیں گی۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظرپاک ایران مشترکہ پالیسی بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے ۔ افغانستان میں پاکستانی سفیر نے افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے چند روز قبل ملاقات کی جس میں ان کو دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی ہے یاد رہے کہ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے اہم رکن ہیںاور شمالی اتحاد کو روس کے قریب سمجھا جاتا ہے۔اس ضمن میں ہماری سول اور عسکری قیادت نے روس کے ساتھ اپنے روابط بہتر سے بہتر بنانے کی پالیسی اختیار کی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سول اور عسکری عہدوں پر تعینات اعلی شخصیات نے روس کے متعدد دورے بھی کیے ہیں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اورروس کو قریب لانے کے لئے ہمارا عظیم دوست چین بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اورروس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روس اور پاکستان نے نا صرف مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیںبلکہ روس پاکستان کوفوجی سازوسامان دینے پر آمادہ ہے۔ پاک چین مشترکہ تعاون سے تیار کیا جانے والے جے ایف 17 تھنڈرطیارے کے انجن روس پہلے براہ راست پاکستان کو دینے پر راضی نہیں تھا لیکن اب اس نے یہ انجن براہ راست پاکستان دینے پر نہ صرف آمادگی ظاہر کی ہے بلکہ روس پاکستان میں گیس پائپ لائن کی تعمیر پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ پاکستان نے بھی روس کو گوادر پورٹ سمیت اپنی بندر گاہوں تک رسائی دینے کی پیش کش کی ہے۔پاکستان اور روس افغانستان کے راستے دونوں ممالک کو ریل کے ذریعے ملانے پر بھی اتفاق کر چکے ہیں۔
موجودہ صورت حال کے پیش نظریہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان خطے میں تنہا ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات نہیں مگر ریاست پاکستان کی حالیہ کوششوں کے پیش نظر پاک ایران تعلقات میں بہت بہتری آئی لیکن ان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان جو نئی پالیسی بنا رہا ہے اس میں روس کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے روس خطے کا اہم کھلاڑی ہے اس کی طاقت اور اثرو رسوخ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس لئے پاک روس تعلقات میں بہتری اور اس میں مزید اضافہ کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ امریکہ جو کہ عالمی طاقت ہےامریکہ سے تعلقات میں بہتری لانے اور اسے یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی کیا مشکلات ہیںامریکہ کی نظریں بھی اس خطے پر مکمل طور پر مرکوز ہیں افغانستان اب بھی اس کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے امریکہ پاکستان کی بدلتی پالیسیوں کا بغور جائزہ لے رہا ہے ۔ پاکستان کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے مراسم بھی اس سے پوشیدہ نہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی سینیٹر جان مکین کی قیادت میں ایک وفد نے نہ صرف پاکستان کا دورہ کیا بلکہ امریکی سول و عسکری قیادت نے بھی پاکستان کے کئی دورے کیے۔ امریکی عہدیداروں کے ان دوروں سے خطے میں پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ریاست پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی درست سمت میںآگے بڑھ رہی ہے لیکن بہت سے مسائل ابھی باقی ہیں ہمارا دشمن بھارت افغانستان کے راستے مختلف طریقوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مسلسل کوشش میںہے اگرچہ ان حالات میں ایران نے بھارت کو دو ٹوک پیغام دیدیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی کو بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی طرح افغانستان میں دو بڑے گروپ طالبان اور شمالی اتحادہیں اگر ان دونوں گروپوں میں اتحاد ہوجاتاہے اوروہ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں تو بھارت کو افغانستان میں اپنی پالیسی اور پاکستان کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔بھارت کی افغانستان میں کی جانے والی کھربوں کی سرمایہ کاری بھی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اسی صورت میں مکمل طور پر مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں جب پاکستان میں استحکام ہوگا۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں سے میری یہی درخواست ہے کہ پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ان حالات میں ملک کو مکمل طور پر سیاسی استحکام اور قومی اتحاد کی اشدضرورت ہے لہٰذا ایسے اقدامات کرنے سے گریز کیاجائے جس سے ملک کی سلامتی اور بقا کو نقصان کا اندیشہ ہو۔

.
تازہ ترین