• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ واقعہ ہے 16 فروری1974 ءکا۔ مرزا طاہر بیگ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر1970ءکے عام انتخابات میں لاہور سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 78سے منتخب ہوئے۔16 فروری1974ءکو پیپلز پارٹی لاہور کے صدر سید کوثر علی شاہ نے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک استعفیٰ اسپیکر پنجاب اسمبلی کو پیش کیا ،یہ استعفی مرزا طاہر بیگ کا تھا جس پر ان کے دستخط بھی ثبت تھے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اسے کارروائی کیلئے فوری طور پر سیکرٹری اسمبلی کو بھیج دیا جس نے اسے باضابطہ اطلاع کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔الیکشن کمیشن نےاس استعفے کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کرکے گزٹ میں شائع کر دیا اور نشست خالی قرار دے دی گئی۔ اسی شام ساڑھے چھ بجے مرزا طاہر بیگ کے کزن مرزا عزیز اللہ بیگ کی طرف سے گلبرگ پولیس اسٹیشن لاہور میں ایک رپورٹ درج کرائی گئی جس میں کہا گیا کہ مرزا طاہر بیگ کو صبح مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر اغواء کیا اور انہیں سید کوثر علی شاہ کے گھر لے گئے جہاں ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ان سے استعفے پر دستخط کرائے گئے۔اس کے بعد اگلے دن17فروری1974ء کو مرزا طاہر بیگ نے خود اسپیکر پنجاب اسمبلی،وزیر اعظم،گورنر اور متعلقہ حکام کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں یہ ساری کہانی بیان کی۔ اسپیکر نے یہ ٹیلی گرام چیف الیکشن کمشنر کوبھیج دیا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہ ہوئی اور یوں استعفے کا یہ معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا جہاں مرزا طاہر بیگ نے پٹیشن دائر کردی تھی۔ اس معاملے پر بعد میں لاہور کورٹ کے دو بنچز نے دو مختلف آرڈر پاس کئے جن پر متعلقہ اپیلوں کے زیر التواء کے دوران ہی اس حلقے پر ضمنی انتخابات بھی منعقد ہو گئے جس میں نیا امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو کر صوبائی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا جہاں چیف جسٹس محمد یعقوب علی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 1976 میں فیصلہ دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت اسپیکر کا یہ اختیار اور ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی رکن کی طرف سے دئیے گئے استعفے پر کارروائی کی اجازت دینےسے پہلے خود کو مطمئن کرے کہ یہ استعفیٰ اصلی ہے اور یہ رضاکارانہ طور پر دیا گیا ہے۔ اسی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ضروری اقدامات کے طور پر اسپیکر کو کسی بھی شک کی صورت میں مناسب تحقیقات کرانی ہو گی اور تحقیقات کا طریقہ کار یا دائرہ کار ہر کیس کے حقائق پر منحصر ہو گا۔ عدالت عظمی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ تحقیقات کے لئے کوئی بھی ایسا عمومی ضابطہ کار مقرر نہیں کیا جا سکتا جس کو ہر کیس میں لاگو کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ کا یہی وہ فیصلہ ہے جسے رولز آف بزنس اینڈ کنڈکٹ آف بزنس ان نیشنل اسمبلی 1992 اور بعد میں 2007 کے لئے بنیاد بنایا گیا اور یہی وہ فیصلہ ہے جس کو اب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی طرف سے دئیے گئے استعفوں کی تصدیق کے لئے بطور حوالہ پیش کیا جا رہا ہے۔ آج کل ملک میں ایک نئی بحث جاری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ان ارکان کے استعفے منظور کر لینے چاہئیں یا نہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے چکے ہیں اور کیا ان ارکان کومتعلقہ اسپیکر اجتماعی طور پر طلب کریں یا الگ الگ بلا کر استعفوں کی تصدیق کریں۔اس صورتحال میں ایک نیا آئینی تنازع بھی جنم لے چکا ہے کیوں کہ تحریک انصاف کی قیادت کا مؤقف ہے کہ انہوں نے استعفے اجتماعی طور پر ایک ہی دن جمع کرائے ہیں اسلئے ان کے ارکان کواستعفوں کی تصدیق کیلئے بھی اجتماعی طور ہی بلایا جائے۔ ایسی صورتحال میں جب ان استعفوں کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرچکا ہے یہ تنازع اب ایک آئینی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی آئینی بحران سے بچنے اور سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونیوالے پی ٹی آئی ارکان کو طلب کرنے کے نوٹس جاری کئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو استعفے کی تصدیق کیلئے 13اکتوبر کو بلایا گیا ہے۔ ان نوٹسوں کے باوجود تحریک انصاف کے ارکان تاحال انفرادی طورپر اسپیکر چیمبر میں پیش نہیں ہوئے۔ اسی دوران سیاسی جرگے کے ارکان نے ایک بار پھر اسپیکر سے ملاقات کر کے درخواست کی ہے کہ استعفوں کو منظور نہ کیا جائے کیوں کہ اس عمل سے موجودہ سیاسی بحران زیادہ سنگین ہو جائے گا لیکن اسپیکر نے انہیں بھی باور کرا دیا ہے کہ ان کی آئینی ذمہ داری ،سیاسی نظریہ ضرورت کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔ اب اسپیکر کے لئے ایک طرف آگ ہے تو دوسری طرف کھائی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے آئین کی پاسداری کی قیمت کیا میاں نوازشریف کی حکومت کو ایک بار پھر بہت مہنگی پڑے گی اس کا بخوبی ادراک اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کئے گئے اشارے سے کیاجا سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے جے یو آئی ف کے قائد مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی کے رہنماؤں کی طرف سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے فوری منظور کرنے کیلئے وزیر اعظم کو مسلسل اکسائے جانے پر خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت مفاداتی سیاست کرنے والوں کی باتوں میں آ گئی تو استعفوں کا یہ کھیل یہیں نہیں رکے گا بلکہ استعفوں کی بارش شروع ہو جائے گی۔ متحدہ قومی موومنٹ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ہی اپنے ارکان سے اجتماعی استعفے لیکر اور جماعت اسلامی بجلی کے اضافی بلوں، مہنگائی اور بیروزگاری سمیت دیگر عوامی مسائل پر محدود احتجاج کرکے موجودہ نظام کے غیر پائیدار ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے۔ جبکہ متحدہ کے قائد الطاف حسین اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر فوج کو فوری طور پر ٹیک اوور کرنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ اسعتفی نہ دینے والے شیخ رشید بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس حکومت کو کسی دشمن یا اپوزیشن کی ضرورت نہیں یہ اپنے بھاری مینڈیٹ کے نیچے خود ہی دب جائیگی۔ قومی اسمبلی میں اکلوتی نشست کے حامل شیخ رشید ہیں تو بہت گھاگ سیاست دان ،جانتے تھے کہ اگر انہوں نے استعفیٰ دے دیا تو اسپیکر فوری طور پر قبول کر لیں گے اور قربانی سے پہلے قربانی کیا ان کا تو جھٹکا ہو جائے گا۔ ویسے تو عمران خان بھی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان نے بھی بس شو شا کے لئے استعفے دئیے ہیں ،دل سے تو وہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کے استعفے کسی طور منظور ہوں یہ تو اب رنگ میں بھنگ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ نیتوں کا ہی حال ہے کہ مستفعی ہونیوالے شاہ محمود قریشی اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کرا رہے ہیں تو اسد عمر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ملنے والی سرکاری گاڑی واپس کرنے کو تیار نہیں۔ کچھ ارکان چوری چھپے اسپیکر کو ٹیلی فون کرکے منت سماجت کر رہے ہیں کہ جاوید ہاشمی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں تھوڑا کہے کو بہت جانتے ہوئے ان کے استعفے انہیں طلب کئے بغیر قبول نہ کئے جائیں۔ اب نہ استعفے دینےو الے چاہتے ہیں کہ نوبت منظوری تک جائے اور نہ ہی اسپیکر ایوان کو پی ٹی آئی کی نشستوں سے خالی ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو احتجاج اور دھرنوں سے اکتائی قوم کو مزید ہیجان میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اسپیکر صاحب بھی بخوبی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان کے استفعوں کی تصدیق کے لئے پیش نہ ہونے کی صورت میں اسمبلی کے رولز خاموش ہیں۔ وہ اپنی آئینی ذمہ داری ضرور پوری کریں اور دئیے گئے استعفوں کی تصدیق کا عمل مکمل کرنے کی رسمی کارروائی بھی پوری کریں لیکن جہاں رولز خاموش ہوجائیں وہاں براہ مہربانی آپ بھی معاملے کو داخل دفتر کر کے چپ سادھ لیں کیوں کہ حکومت نہ سہی آپ تو سمجھدار ہیں کہ اگر آپ نے آئین کے ایک آرٹیکل کی مکمل پاسداری کی کوشش کی تو کہیں آئین سازی کرنے والی اسمبلی کا وجود ہی خطرے سے دوچار نہ ہو جائے۔
تازہ ترین