• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متنجن، کھچڑی، چوں چوں کا مربہ، مکسچر یا کاک ٹیل، جو آپ کو مناسب لگے وہی اس کالم کا عنوان ہے کہ میں نے تو ’’بلا عنوان‘‘ لکھ کر اس جھنجھٹ سے ہی جان چھڑا لی۔ گزشتہ دو دن میں چند موضوعات مارک کئے تھے لیکن ایک بھی اس قابل محسوس نہ ہوا کہ پورا کالم اس کی بھینٹ چڑھا دوں سو فیصلہ کیا سب کو یکجا کر کے ہلکی آنچ پر چڑھا دوں۔آغاز مرنجاں مرنج چوہدری شجاعت حسین سے کرتے ہیں جن کے بارے عام تاثر یہ کہ بہت دانا آدمی ہیں لیکن آپ نے عجیب سی بات کی ہے کہ پاکستان دشمن بیان دینے والوں اور ان کے سہولت کار وزیراعظم کو آرٹیکل 6کے تحت سزا ملنی چاہئے۔ ’’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو۔ کہ نا حق خون پروانے کا ہو گا‘‘ والا شعر یاد آ رہا ہے کہ شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے سے روکو ورنہ وہ شہد کا چھتہ بنائے گی جس سے شہد کے ساتھ ساتھ موم بھی تیار ہو گا جس سے موم بتی تیار ہو گی تو اس کے جلنے پر ظاہر ہے پروانہ بھی آئے گا جو خود کش بمبار کی طرح مارا جائے گا یعنی جیسے اس ’’کیس‘‘ میں شہد کی مکھی ’’سہولت کار‘‘ ہے ویسے ہی حالیہ پاکستان دشمن بیان میں وزیراعظم سہولت کار ہیں بلکہ شاید شہد کی مکھی کو پروانے کے قتل کی واردات میں ملوث کرنا نسبتاً آسان ہو، وزیراعظم پر یہ ملبہ ڈالنا مشکل ہو گا۔ سمجھ نہیں آتی کہ اتنا گھما پھرا کر کان پکڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں تو سیدھا سادہ ’’پاناما‘‘ مہینوں سے پکڑائی نہیں دے رہا۔ دہائی دینی ہے تو ’’پاناما‘‘ کی دیں جو ’’فول پروف‘‘ ہے اس لئے پلیز! دھول اڑانے سے گریز کریں کہ اس سے کنفیوژن پھیلنے کا احتمال ہے۔ اس مسئلہ پر عمران خان کی طرح یکسو ہو کر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ سہولت کاری کی چھوڑیں، براہ راست فنکاری پر توجہ دیں تاکہ کسی منطقی انجام تک پہنچا جا سکے کہ مملکت خدا داد میں تو یہی مشکل ہو رہا ہے۔سپریم کورٹ کہتی ہے کہ ’’کرپشن کو فوری نہ روکا تو ریاست انتہائی خطرناک انجام سے دوچار ہو گی‘‘ اس سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ ’’نیب بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالے‘‘ لیکن نتیجہ؟؟؟ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا گیا ’’خوف خدا نہیں خوراک کے نام پر زہر کھلایا جا رہا ہے‘‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ تبصرہ کہ اس ملک میں مردم شماری کچھ لوگوں کے وارے میں ہی نہیں۔ حیرت ہے ہر کوئی عوام سے لے کر حکام اور حکام بالا تک ہر کوئی ایک جیسے نتیجوں پر پہنچا ہوا ہے لیکن ہوتا ہواتا کچھ بھی نہیں۔ سپریم کورٹ نے خوراک کے نام پر زہر کھلانے کی بات کی تو ایک ٹی وی پروگرام یاد آیا کھانے کی ایک شے کو ’’مکھانے‘‘ کہتے ہیں جو عام طور پر دیہاتی میلوں ٹھیلوں اور مزاروں پر ملا کرتے ہیں۔ یہ میٹھے اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں جنہیں غریبوں کی ’’کینڈیز‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں کسی نجی ٹی وی چینل نے کسی ’’حاجی صاحب‘‘ کی فیکٹری پر ’’چھاپہ‘‘ مارا اور یہ حیران کن ناقابل یقین منظر دیکھنے کو ملا کہ ’’مکھانے‘‘ بنانے والے پارسا ان میں سفید ماربل کا باریک پائوڈر مکس کر رہے تھے تاکہ ان کا وزن بڑھایا جا سکے کہتے ہیں ’’کرپشن کو نہ روکا گیا تو ریاست انتہائی خطرناک انجام سے دوچار ہو گی۔‘‘حضور! ہو گی نہیں۔۔۔ ہو چکی کہ اگر پانی میں آرسینک، دودھ میں بالصفا پائوڈر اور مکھانوں میں ماربل پائوڈر متعارف ہو چکے تو اس سے زیادہ خطرناک انجام اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر بھی ’’امید کی کرنوں کے کاروباریوں‘‘ اور درباریوں کا پیٹ نہیں بھرا تو اس ’’ایپی سوڈ‘‘ سے سیر شکمی کی کوشش کیجئے۔کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر، ریڑھ کی ہڈی، اقتصادی حب، بندر گاہ اور دیگر بہت کچھ ہے، یہاں شرح خواندگی کا گراف بھی بہت اونچا ہے، لوگ بھی مہذب ہیں لیکن جب MQMکے دفاتر مسمار ہو رہے تھے تو سب سے ہولناک مناظر وہ تھے جن میں عام شہری ان دفاتر سے ’’مال غنیمت‘‘ اٹھا کر بھاگ رہے تھے۔ اے سی، کولر، میز، کرسی، کمپیوٹر، فیکس، پنکھا غرضیکہ جو جس کے ہاتھ لگا۔ ۔۔ لے اڑا کہ ہمارا اصل حال ہی ’’لٹ دا مال‘‘ ہے اور لوٹ مار کا یہ کلچر، یہ نفسیات ’’اوپر‘‘ سے شروع ہو کر نیچے تک سرائیت کر چکی ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے جب چوکیدار ہی چور بن جائیں تو سادھ بھی صبر پر لعنت بھیجنے لگتے ہیں۔ مچھلی ’’اوپر‘‘ سے سڑنا شروع کر دے تو اس کا ’’نیچا‘‘ بھی گلنا شروع کر دیتا ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک انجام کیا ہو گا کہ جس صورت حال سے عبرت حاصل کی جانی چاہئے تھی۔۔۔ وہاں سے بھی ’’لٹ کا مال‘‘ سمیٹنا بہتر سمجھا گیا۔ایک کشتی ہے جس کے ملاح مر چکے اور پتواروں کو دیمک چاٹ چکی اور اب یہ لہروں کے سہارے کنارے ڈھونڈ رہی ہے۔ کس زبان میں لکھیں کہ حضور! کرپشن کا نقصان یہ نہیں کہ خزانہ اور ملکی وسائل کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔۔۔ اس کا اصل اور ناقابل تلافی نقصان یہ کہ اجتماعی کردار کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ عوام مسمار شدہ تجاوزات سے سبق نہیں لیتے سامان اٹھا لیتے ہیں۔ اسی لئے عرصہ دراز سے تکیہ کلام بن چکا کہ ہمارا مسئلہ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کی تباہی ہے۔حیرت ہے کرپشن کے خلاف سب متحد اور متفق ہیں لیکن اس کے خلاف مورچہ بنانے، محاذ کھولنے کا رسک لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ ایسا نہ ہوا تو صرف داستان ہی باقی رہ جائے گی۔ اس کالم کی طرح عنوان غائب ہو جائے گا، سب کچھ بلا عنوان رہ جائے گا۔

.
تازہ ترین