• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں دہشت گردی عروج پر ہے، حکمراں اور عسکری ادارے روز ہی دعوے کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے اور بھاگ رہے ہیں۔ ان دعوؤں کے دو چار دن بعد ہی ایک بڑا حادثہ ان دعوؤں کی قلعی کھول دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آجتک اس ملک میں انصاف و قانون کی حکمرانی قدم نہیں جما سکی ہے۔
لاتعداد بین الاقوامی رپورٹوں میں پاکستان کی پولیس کو بدترین رشوت ستانی کا مجرم قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ان محکموں میں کام کرنے والوں کی اکثریت کرپٹ ہو مگر جہاں کچھ ہوتا ہے وہیں سے افواہیں اور خبریں آتی ہیں۔ میرے پیارے دوست مرحوم مُحسن بھوپالی نے بڑا پیارا شعر کہا تھا:
ہر فسانہ غور سے سنتا ہوں محسنؔ اس لئے
ایک حقیقت کے بھی بن جاتے ہیں افسانے بہت
اور یہ شعر بہت سی باتوں پر صادق آتا ہے۔
دہشت گردی کو تو چھوڑیئے یہ چند گمراہ کن، جذباتی لوگ دوسروں کے کہنے اور اُکسانے پر کرتے ہیں نہ ان کا دین نہ ایمان۔ وہ یہ نہیں جانتے اللہ رب العزّت نے کسی بیگناہ کے قاتل کو مستقل طور پر جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے وعدےکے خلاف نہیں کرتا۔
جہاں تک انصاف کا تعلق ہے تو یہ دو فریقوں کے درمیان سچائی و حق پر مبنی عدلیہ کا فیصلہ کرنے کا کام ہے۔ یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ نہ ہو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور عدلیہ پر الزام ترازی شروع کردیتا ہے مگر موجودہ دور میں عموماً اپیل کی گنجائش ہوتی ہے۔ حکمرانوں اور بااقتدار لوگوں کو اپنی مرضی کے فیصلے کے خلاف سننے اور ماننے کی عادت نہیں ہے اسی لئے زمانہ قدیم سے آج تک حاکمان وقت عدلیہ پر اپنا اثر و رسوخ رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کی ایک شکل اپنی مرضی کے جج صاحبان کا تقرر، ان کو ناجائز مراعات دے کر بلیک میل کرنا، رشتہ داروں کے ذریعہ پریشر ڈالنا وغیرہ ہے۔ پرانے زمانہ میں اپنی مرضی کے فیصلہ نہ ملنے پر قاضیوں کے کوڑے بھی لگا دیئے جاتے تھے۔ اپنی مرضی کے ججوں کا تقرر مغربی دنیا میں بھی عام ہے ، صدر بش کو اپنے لگائے ہوئے جج نے شکست سے بچا کر فاتح بنوادیا تھا۔ ’الگور‘ دوبارہ گنتی میں یقینا جیت جاتے مگر اس جج نے یہ کام روک دیا اور بش کو چند سو ووٹوں سے جتوا دیا۔
دیکھئے اسلام میں انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے اور مسلمانوں کیلئے سوشل ، معاشی زندگی کے ہر پہلو میں انصاف پسندی کو مقدم قرار دیا گیا ہے۔ رب العزت نے کلام مجید کے ذریعہ یہ احکامات صادر فرمائے ہیں۔ 1۔بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ (سورۃ المائدہ، آیت 42 )۔ 2 ۔اے ایمان والو! انصاف پر پختگی سے قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے رہو چاہے وہ تمھارے یا تمھارے والدین اور عزیزوں کے خلاف ہی ہو، وہ امیر ہو یا مفلس، اللہ دونوں سے زیادہ حقدار ہے۔ پس خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ حق سے ہٹ جائو اور اگر تم کجی کرو گے یا بہانہ بازی کرو گے تو جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے خوب خبردار ہے۔ (سورۃ النساء، آیت 135)۔ 3۔اے ایمان والو! اللہ کیلئے پختگی سے قائم رہنے والے اور عدل کے ساتھ شہادت دینے والے رہو اور کسی جماعت کی دشمنی تم کو اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے ساتھ انصاف ہی نہ کرو۔ ہر حال میں انصاف پر قائم رہو کہ وہ تقویٰ سے بہت قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کو اس کی پوری خبر ہے کہ تم کیا کرتے رہتے ہو۔ (سورۃ المائدہ، آیت 8 ۔4۔اور جب فیصلہ کرو تو انصاف کو ملحوظ رکھو اگرچہ وہ تمھارے کسی قرابت دار کے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ (سورۃ الانعام، آیت 152 )۔5 ۔ا ٓپ (محمدؐ) کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے تو عدل و انصاف ہی کا حکم فرمایا ہے‘‘۔ (سورۃ اعراف، آیت 29 )۔ 6۔بے شک اللہ عدل و انصاف کا حکم فرماتا ہے (سورۃ نحل، آیت 90 )۔ 7۔اور آپ (محمدؐ) کہہ دیں کہ مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اپنے اور تمھارے درمیان انصاف کروں۔ (سورۃ شوریٰ، آیت 15 )۔ 8۔اور اگر وہ زیادتی کرنے والا گروہ رجوع کرلے تو ان فریقین کے درمیان عدل کے ساتھ صلح و اصلاح کرادو اور انصاف کا خیال رکھو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (سورۃ حجرات، آیت 9 )9۔ اور یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان (انصاف) کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ (سورۃ حدید، آیت 25 )۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کے انصاف کے بارے میں احکامات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انتظامیہ ہمیشہ سے نہایت نااہل رہی ہے اور چونکہ یہ ہی ملک کے سیاہ سفید کے مالک ہوتی ہے ،پورا نظام کرپشن کا شکار ہوجاتا ہے۔اس نااہلی کا سب سے زیادہ اثر پولیس و عدلیہ پر پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک نہایت ہی پیچیدہ اور ناقص نظام انصاف رائج ہے اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پولیس کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جس کو چاہیں جھوٹے مقابلے میں قتل کردیں، جس کو چاہیں غائب کردیں، جس کے چاہیں ہاتھ پیر توڑ دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ قتل کے مقدمہ میں ایف آئی آر میں جس بے گناہ کا نام چاہیں ڈالدیں اور پھر لاکھوں روپیہ لے کر نام نکال دیں۔ پورا مقدمہ اسی ایف آئی آر پر مبنی ہوتا ہے مجرم چھوٹ جاتا ہے اور بیگناہ برسوں جیل میں پڑا رہتا ہے۔ ہمارے یہاں قانون شہادت نے ججوں کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیںوہ مجبوراً شہادت پر فیصلہ کرتے ہیں جو عموماً جھوٹی ہوتی ہیں۔ جج صاحبان یہ جانتے ہیں اور پھر بھی مجبوراً ایسے فیصلے دینا پڑتے ہیں جو ان کے ضمیر کی آواز کے خلاف ہوتے ہیں۔ ججوں کو آپ دھوکہ نہیں دے سکتے جب کیس ان کے سامنے آتا ہے تو چند منٹوں میں حقیقت ان پر عیاں ہوجاتی ہے اور وکلاء کتنی ہی مہارت سے سیاہ کو سفید بنانے میں صرف کریں وہ ان پر عیاں ہوتی ہے۔دیکھئے پرانے زمانے میں قاضی مسجد میں بیٹھ کر مشکل سے مشکل مقدمہ، تنازع کا فیصلہ ایک بیٹھک میں کر دیتے تھے اور کسی کو ان کے فیصلوں پر اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں اور بعد میں بھی سلطان محمود غزنوی، ہارون الرشید وغیرہ کے دور میں قاضیوں کے انصاف کا بول بالا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے جج صاحبان ایئر کنڈیشنڈ عمارتیں چھوڑ کر مسجد میں بیٹھ جائیں لیکن میں یہ درخواست ضرور کرونگا کہ خدا کے واسطے جو فرض اللہ نے آپ پر ڈالا ہے اس کو نیک نیتی اور تیزی سے انجام دیں، چھوٹے چھوٹے سے مقدمے برسوں چلتے رہتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں وکیل نہ آئے تو سماعت ملتوی، ملزم نہ آئے تو سماعت ہفتوں کیلئے ملتوی۔ روز ٹی وی پر یہی دکھایا جاتا ہے کہ وکیل کی غیر حاضری یا سرکاری وکیل کی غیرحاضری کی وجہ سے مقدمہ تین چار ہفتوں کیلئے ٹل گیا۔ یہ ملزم کے وکلا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرور پیش ہوں اور اگر پیش نہ ہوں تو عدلیہ پر فرض ہے کہ وہ یکطرفہ فیصلہ سنا دیں۔ یہاں صرف یہ خبر آتی ہے کہ جج صاحب نے برہمی کا اظہار کیا۔ اس رویّہ سے نہ ہی پولیس کے اہلکار، نہ ہی سرکاری اہلکار اور نہ ہی ملزم خوفزدہ ہیں۔ مسکراتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
ہماری عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان جسٹس منیر نے، پھر جسٹس انوارالحق اور جسٹس نسیم حسن شاہ اور پھر جسٹس ارشاد حسن خان نے پہنچایا۔ ان لوگوں نے ڈکٹیٹروں اور آمروں کو ہیرو بنایا۔ دستور میں تبدیلی کی اجازت دی اور ملک کو تباہ کرادیا۔ جسٹس ایم آر کیانی بھی تو بااصول جج تھے ان سے ایوب خان اور ان کے حواری کسی قسم کی رعایت یا بدتمیزی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے لاتعداد مارشل لاز کو کالعدم قرار دے کر حکومت وقت کی ہوا نکال دی تھی۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری عدلیہ سخت اور منصفانہ فیصلے بلاتاخیر کرے تو آہستہ آہستہ ہم ایک اچھی قوم بن سکتے ہیں۔ وکی لیکس میں صاف درج ہے کہ عدلیہ کے احکامات کے خلاف سیکرٹری داخلہ نے فیصلے کے فوراً بعد میرے متعلق معاملات کی تفصیل امریکن سفیر کو جاکر دیدی تھی اور حکومت نے یا عدلیہ نے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا، حالانکہ یہ جرم تو ایسا ہے کہ اگر برسوں بعد بھی معلوم ہو تواس پر سزا ملنی چاہئے۔


.
تازہ ترین