• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ سفاک بھی ہوتی ہے اور بے رحم بھی ،شفاف بھی ہوتی ہے اور باعث عبرت بھی مگر لازم ہے کہ مؤرخ دیانت دار ہو درباری نہ ہو…تاریخ کے صفحات ’’میں‘‘ کا دم بھرنے والوں کے دردناک انجام سے بھرے پڑے ہیں… ایک ’’میں‘‘ اپنے ہونے کااعلان اور کسی کام کی انجام دہی کے ’’شخصی وانفرادی تعلق‘‘ کی اطلاع یا یاددہانی کا استعارہ ہوتی ہے جسےاختیار کرنابسا اوقات لازمی ہوتا ہے البتہ جس ’’میں‘‘ کی میں بات کررہا ہوںوہ ’’امرِ حقیقیــ‘‘ اور ’’مسبب الاسباب‘‘کے دائروں تک بے حجابانہ پرواز کی گستاخی کرجاتی ہے اور پھر ’’وقتِ مقررہ‘‘ کے بعد انجام تباہی کےسوا کچھ اور نہیں ہوتا…انسانوں کو کام ہے کہ ’’اتمام حجت‘‘ کے تمام راستوںکو اختیارکرتے ہوئے ایسی ’’میں‘‘ والے کو ممکنہ حوادث، امثال ،دلائل اور حالاتِ حاظرہ کے تناظر میں آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کے تقاضے بھی پورے ہوسکیں اور ’’اختتام‘‘ سے قبل نصیحت کے اہتمام کا وہ ’’متکبر نفس‘‘ مرنے سے پہلےلاعلمیت کا شکوہ نہ کرے …بعض دفعہ یہ سعی ’’سعی حاصل ‘‘ ہوتی ہے اور بعض مرتبہ ’’سعی لاحاصل ‘‘…ممکنہ ’’ختم شد‘‘ کی پہلے سے پیش گوئی یا تجربے کی بنیاد پر یہی نتیجہ اخذ کرنے والے ’’سمجھانے والے‘‘ کو کچھ بھی سمجھ سکتے ہیںتاوقتیکہ معین ساعتوں کی آمد تک اُسے’’میں‘‘ والے کے ساتھ دیکھیں یا پھر اُس سے علیحدہ…
’’میں نہ رہوں تو کچھ بھی نہ رہے ، میں نے سب کچھ بنایا ہے لہذا اگرکسی نے بھی میری ’’میں‘‘ کو ٹھیس پہنچانے کی یا مجھے ’’درست‘‘ سمت بتانے کی کوشش کی تو وہ بھی نہیں رہے گا، میں ہوں توسب ہیں، میں نہیں تو کوئی بھی نہیں‘‘…ایسے خیالات اگر پختگی کی ’’ضد‘‘ تک پہنچ جائیں توسب سے زیادہ دکھ، شدیدکرب اورخطرناک جھٹکے کی ٹھوکر سے منہ کے بل وہ گر پڑتے ہیںجنہیں ’’بہترین نیت‘‘ کے ساتھ ’’بدترین سرکش‘‘کو حُدود و قیود کے رموز کی حجتِ تجدیدکےلئے ’’قوم‘‘ کی خاطربظاہر غلط اور منزل سے بے خبر راستے پرشاید کہ منزل مل سکےکی اُمید لے کر چلنا پڑتا ہے اور پھر جب وہ ’’حقیقت کی گہری کھائی‘‘ تک پہنچتے ہیں تب اُنہیں ندامت اور اطمینان کے دونوں احساسات بھینچ ڈالتے ہیں، ندامت اِس بات کی کہ ’’کس کو سمجھارہے تھے؟ــ‘‘ اور اطمینان اِس روشن سچائی کا کہ’’نیت میں کھوٹ‘‘ نہیں تھا…یہ 1992 نہیں ہے اور نا ہی 1995 ہے کہ جب’’مُہاجروں کے خلاف‘‘ جیسے جذباتی تین حرفوں کا سہارا لے کر ظرفوں سےکھیلا جاتا ہو…مُہاجر وہ ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا ہے ،مُہاجر اُن کو کہتے ہیں جنہوں نے محمد علی جناح یعنی قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میںہندوستا ن کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان ، لے کے رہیں گے پاکستان‘‘جیسے نظریے کی چھایا میں آگ و خون کا سمندر عبور کر کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا جس نے ہمیں شناخت کی چادر اوڑھا کر ہمارے برہنہ وُجود کو ڈھانپ لیااور چوہدری رحمت علی نے اِس چادر کا نام ’’پاکستان ‘‘ رکھا…مُہاجر صرف وہی کہلائیں گے جو ہمیشہ ’’جدوجہد‘‘ کرنے والے ہوں گے اور ’’مُہاجر‘‘ لفظ کی اصل تعریف بھی یہی ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے کسی پھول کی طرح جھڑتی ہوئی اُمت تک صحابہ کے ذریعے آ پہنچی، اِسی لئے اُن کی ہجرت بھی جدوجہد اور جس مقام کی جانب ہجرت کی جائے اُس مقام کی بقا اور سلامتی کی جدوجہد اُنہیں ہمیشہ ’’مُہاجر‘‘کہلائے جانے کی شناخت سے سرفراز رکھتی ہے …مُہاجر کہہ کر صرف اُنہیں پُکارا جائے گا جنہیں ہجرت کے مقام کے علاوہ اب کہیں اور نہیں جانا کیونکہ وہ اوروں کی طرح ’’پناہ گزین ‘‘ نہیں بلکہ مُہاجر ہیں جنہوں نے واپس لوٹنے کیلئے نہیں بلکہ دم واپسی یہیں لیٹنے اور آخری آرام گاہ کاخواب آنکھوں میں سجائے ہجرت کی تھی … اِسی لئے اُن کا اوڑھنا بچھونا،جینا مرنا اور ہر ایک سپنا صرف ’’پاکستان ‘‘ ہے …ہمارا پاکستان، کیونکہ جب تمام شناختیںایک دوجے میں ضم ہوکر لیاقت علی خان کا ’’مکا‘‘ بنتی ہیں تو ’’میرا پاکستان‘‘ سے یہ ’’ہمارا پاکستان‘‘ ہوجاتا ہے …اور ہم اپنے پاکستان کو خاکم بدہن ’’مُردہ باد‘‘ کہنے والے کسی بھی ’’ذہنی مریض‘‘ کو مُہاجروں کی قیادت کا حق نہیں دے سکتے…مُہاجروں کیلئے تو بھارت مُردہ باد ہےجہاں کی سرزمین اِس وطن کے ہر ایک غدار کیلئے شداد کی جنت سے کم نہیں…
جس طرح ہم خود کش حملہ آورں، اسلام کی اپنے طور پر تشریح کرنیوالے دہشت گردوں اوردنیاکا امن تباہ کرنیوالے ’’داعش‘‘ اور ’’ٹی ٹی پی‘‘ کےدیں فروشوں کو مسلمان کی تعریف پر پورا اُترنے والا نہیں سمجھتے اور اُن کے ہر اسلام دشمن عمل کواللہ سبحانہ وتعالی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات کے برعکس تصور کرتے ہیںاور اُنہیں جماعت سے ’’خارج‘‘ قرار دے کر اُنہیں اسلام کا ترجمان ، متشرح یا فقیہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں بالکل اِسی طرح ہر وہ فرد، افراد یا گروہ جو اپنے آبا و اجداد کی ہجرت کو سوالیہ نشان بنا کر ہماری ہی ماؤں بہنوں کو بالواسطہ پہلے یوں گالی دے کہ ’’پاکستان (معاذ اللہ) غلط بناتھا، گویا میرے اجداد کی حرمتیں خاکم بدہن کسی بے حرمت مقام کیلئے لٹیں ۔
اور میری ماؤں بہنوں نے اپنی عصمتیں بچانے کیلئے کنوؤں میں’’پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد‘‘کے نعروں کے ساتھ جو چھلانگیں لگائیں وہ عزتیں بیکار تھیں اور میرے نانا سردار علی صابری مرحوم نے مولانا حسرت موہانی سے مسکرا کے جب یہ کہا تھا کہ ’’مجھے جناح کے ساتھ جانے سے نہ روکیے کیونکہ میں نے پاکستانی کی حیثیت سے مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے آپ بھلے ہی ہندوستانی وفات پائیں‘‘ اور 1985میں اپنے انتقال سے پہلے جب اطمینان بھرے لہجے میں اُنہوں نے میری ماں سے کہا تھا کہ ’’غوثیہ!اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھےمیری آزاد دھرتی پر دفن ہونے کی سعادت بخشی اور جب میں چلا جاؤںتو اپنے بچوں کو پاکستان بننے کی کہانیاں ہمیشہ سناتی رہنا تاکہ یاد رہے کہ یہ ملک کسی نے ’’تحفے‘‘ میںنہیں دیا تھااور کیونکہ ہم مسلمان جب کربلا کے دردناک سانحے کو بھول جاتےہیں اور ہر سال فاطمہ کے لعل ؓ کو یاد کرنے کیلئے سنیوں اور اہل تشیع میں اپنے اپنے طریقوں اور عقیدوں کے مطابق محفلیں نہ سجائی جاتیںتو شاید ہم ’’بھلانے ‘‘ والوں میں شمار کر کے ’’بھلادیے‘‘ جاتے چنانچہ داستانِ ہجرت سناتی رہنا تاکہ میرے بچے اپنے اجداد کی قربانیوں کا ثمر ’’پاکستان‘‘ کیسے حاصل ہوا یہ جاننے کے بعد اِس پر زندگی وار دینے کے علاوہ کچھ اور نہ سوچیں‘‘…کیا اُن کی یہ آخری وصیت بھی ’’مُردہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے والے عفریتوں کے منہ پر مُہاجروں کا طمانچہ نہیں!توپھرمُہاجروں سے وہ خارج ہوئے اب وہ کسی طورمُہاجر نہیںاور مُہاجرو ں کے رہنما نہیں!
مُہاجر صرف محب وطن ہوسکتے ہیں، پاکستان پر مر مٹنے والے تو کہلائے جاسکتے ہیں لیکن غدار نہیں…’’بڑی دیر کی مہرباں اعلانِ لاتعلقی کرتے کرتے‘‘، عرض کیا تھا کہ پہلے ہی کردیتے تو سب ہی کا بھلا ہوتا…اسرائیل سے بھیک مانگنے والا،بھارت کو دعوتِ مداخلت کیلئے چیخ چیخ کر بلانے والا اور بھارت کے اُن ہندوؤں سے معافی کا طلب گارجنہوں نے ہمارے آبا و اجداد کی ٹرینوں کو کاٹا، بوگیوں میں سوار ہوکر میرے دادا کی چچا زاد بہن کی عزت لوٹی اوراور میری دادی کے سر سے چادر کھینچ کر اُنہیں طمانچے مارے ایسے بدبختوں سے معذرت کے خواستگارکو رہبر مان کر بانیانِ پاکستان کی اولادیں اب اِس مکمل بے حجابی کے بعدکسی طور اپنے والدین کی ارواح کواذیت پہنچانے کیلئے تیار نہیں…اندھے اعتماد والے تو ویسے ہی ’’اندھے‘‘ لفظ کے ساتھ اپنا تعارف کراتے ہیںاور اِس ’’اندھے اعتماد‘‘ والی مثال کو آقا کریم ﷺ پر ایمان لانے سے (معاذ اللہ) متاشابہ گردانتے ہیں…ایسے جہلا اور کم عقلوں کیلئے صرف اِتناہی کہہ دینا کافی ہےکہ رسالت مآب پر ایمان ’’اندھے‘‘ نہیں نبوت کی روشنی دیکھنے والے دانا و بینا لائے تھے…اندھا تو ابوجہل تھا جو نُور کو سامنے پاکر بھی بے نور ہی کہلایااِسی لئے گزارش ہےکہ تائب ہوجائیں،بتوں کو معبودِ برحق بنانے کے دلائل ہر دلیل دینے والے کیلئے عذاب اور بربادی کا سبب بنے ہیں، سب کچھ واضح ہے ، کسی سے سنا نہیں اور کسی نے بتایا نہیں، یہ کوئی سازش نہیں اور یہ کوئی مُہاجر دشمنی نہیں، یہ گھڑاگھڑایا الزام نہیںکیونکہ یہ دریدہ دہنی چھپی ہوئی نہیں بلکہ اعلانیہ ہے ایسے بےہودہ اور ملک دشمن کلمات کی کوئی اور جہت و تاویل نہیں کہ دفاع میں ’’قومی نفرت‘‘ کی لعنت کا اپنے آپ کو مستحق بنالیا جائے …کسی نے کہا تھا، وفاکرو گے ، وفا کریں گے، جفا کرو گے جفا کریںگے لیکن آگے تمہارا نہیں ہمارا ترمیمی شعر ہے کہ’’ہم آدمی ہیں وفا کی مانند ،دغاکروگے،دفع کریں گے‘‘


.
تازہ ترین