• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر عروج کو زوال اور ہر بقا کو فنا ہے،یہی قانون فطرت اور ابدی حقیقت ہے۔ ابن خلدون نے کہا تھا کہ جس طرح انسان بچپن،جوانی اور بڑھاپے کی منازل طے کر کے موت سے ہم آغوش ہو جاتا ہے اسی طرح قومیں بھی عروج کے مرحلے سے گزر کر زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ یہی فلسفہ قوموں اور افراد کو مجبوری اور تقدیر کے تابع کرتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہی فلسفہ کارفرما نظر آتا ہے کہ آج اس قائد کی تصاویر پھاڑ کر کچرے میں تبدیل کی جا رہی ہیں جس کے قد آدم پوسٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی لوگ ڈرتے تھے، ان دفاتر کو سیل یا ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے جو نو گو ایریاز کہلاتے تھے، وہ نائن زیرو آج کسی بیوہ کی اجڑی مانگ کا منظر پیش کر رہا ہے جو کل تک خوف اور دہشت کا دوسرا نام ہوا کرتا تھا۔ اس خورشید بیگم میموریل سیکرٹریٹ میں الو بول رہے ہیں جہاں کل تک راتیں بھی جاگا کرتی تھیں۔ عزیز آباد میں چار گلیاں چھوڑ کر رہنے والے وہ رہائشی بھائی کے اس گھر کے سامنے گھوم پھر رہے ہیں جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی ان کی مجال نہیں ہو اکرتی تھی۔ اس مکا چوک کا نام اور نقشہ بدلا جا رہا ہے جو طاقت کی علامت تھا۔ ان دیواروں پر پاکستان زندہ باد کے نعروں پہ مبنی اسٹیکرز چپکائے جا رہے ہیں۔ عزیز آباد کی وہ گلیاں ہائیڈ پارک میں بدل چکی ہیں جہاں کل تک کراچی پولیس کو بھی جانے کی جرات نہیں ہواکرتی تھی۔ وہ رہنما لندن اور قائد تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں جو دس سطری جملے میں چھ بار بھائی کا نام لینا مقدس فریضہ جانتے تھے۔ وہ دیرینہ ساتھی پارٹی کے بانی کی ذہنی کیفیت کی مذمت کر رہے ہیں جو مخالفین کی طرف سے صرف لندن کا نام لینے پر ہی آستینیں چڑھا لیا کرتے تھے۔ اپنےقائد کے دفاع سے وہ پارٹی ارکان معذرت کر رہے ہیں جو بھائی کے لئے جان تک کی قربانی کا اعلان کرتےنہیں تھکتے تھے۔ وہ رابطہ کمیٹی پلس فائیو کی باتیں کر رہی ہے جو مائنس ون کا سن کر آپے سے باہر ہو جاتی تھی۔ وہ رہنما پارٹی کے آئین میں ترامیم کرنے جیسی بے باکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو جماعت کا پورا نام لینے کی بجائے صرف متحدہ کہنے کو گستاخی تصور کرتے تھے۔ وہ ارکان، پاکستان سے اپنے فیصلے صادر کرنے کی دیدہ دلیری دکھا رہے ہیں جو لندن سے جاری فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا کرتے تھے۔ متحدہ کے سابق وفاقی وزیر بھائی کی تنبیہ کے باوجود حب الوطنی پہ مبنی اپنے ادا کردہ الفاظ واپس لینے کو تیار نہیں جو ایک سیکٹر انچارج کے حکم پر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے تھے۔ متحدہ کے نمائندہ وہ ارکان پارلیمنٹ سوشل میڈیا پر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں جو اپنا سب کچھ بھائی پر وارنے کو اپنے لئے فخر کا باعث سمجھتے تھے۔ تمام تر سختیاں جھیلنے والے وہ وفادار جو قائد کی اشیر باد سے مئیر اور ڈپٹی مئیر نامزد ہوئے وہ منتخب ہونے کے بعد ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کررہے ہیں کہ خدارا بھائی کا نام نہ لینا۔ جو ایک اشارے پہ مرنے اور مارنے پہ تلے رہتے تھے وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ انہونی کیسے ہونی میں تبدیل ہوئی،ہاتھ باندھنے والوں نے بس بہت ہو گیاکہہ کر ہاتھ کیوں اٹھالئے،سر جھکا کر سب کچھ سننے اور سہنے والوں نے سراٹھانے کے ساتھ آنکھیں بھی آنکھوں میں کیوں ڈال لیں روبوٹ کی طرح میکانکی انداز میں ہر آواز پہ لبیک کہنے والوں نے خود مختار انسانوں کا روپ کیسے دھار لیا، سوچنے سمجھنے کی بجائے صرف عمل کرنے والے آخر بغاوت پر کیسے اتر آئے۔ کیوں کہ فطرت اپنے قانون پر عمل پیرا ہو چکی ہے، عروج کا زوال شروع ہو چکا۔ نوشتہ دیوار ہو چکا کہ ان کے قائد ، ان کے بانی ،ان کے بھائی نے اس شاخ کو کاٹ ڈالا جس پر بسیرا کر رکھا تھا، اسی مٹی سے غداری کر ڈالی جس کو چومنے کے لئے ان کے آباؤ اجداد سمیت لاکھوں مہاجروں نے آگ اور خون کے دریا عبور کئے تھے۔ چند ٹکوں کی خاطر اس ماں کو گالی دے ڈالی جس نے اپنی آغوش میں پناہ دے رکھی ہے۔ ایک طرف ماں ہو اور دوسری طرف ماں پر انگلی اٹھانے والا تو ماں کے دفاع میں خون جوش ضرور مارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام مہاجر قوم وطن کے دفاع کے لئے لکیر کے اس طرف کھڑی ہوچکی۔
افسوس صد افسوس یہ ہے کہ دشمنوں اور غیروں کی زبان بولنے والا کوئی بدیسی نہیں بلکہ وہ الطاف حسین ہے جس نے لندن قیام کے دوران سال 2000 میں معروف صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بچپن میں دو خواہشات تھیں ،ایک یہ کہ وہ ڈاکٹر بنیں اور دوسری یہ کہ اگر پاک بھارت جنگ ہو تو وہ پاکستان کی طرف سے لڑیں۔ یہ انٹرویو پنجاب سے ناراضگی کیوں۔ کتاب میں آج بھی محفوظ ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیاتھا کہ وہ یحییٰ خان کے دور میں ایک اسکیم کے ذریعے رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔انہوں نے ملیر اور حیدرآباد چھاؤنی میں تربیت حاصل کی۔ انہی دنوں جنگ شروع ہو گئی۔ وہ دعا کرتے تھے کہ انہیں شہادت ملے لیکن اس سے پہلے وہ دس ہندوؤں کو مار دیں۔ان کی بھرتی بلوچ رجمنٹ میں کی گئی تھی جہاں انہیں سپاہی نمبر 254271 الاٹ کیا گیا تھا۔ ذہنی خلفشار اتنا پرانا کہ اسی انٹرویو کے دوران ہی انہوںنے لسانی تعصب کا ذکر کرتے ہوئے مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسی پہ سخت تنقید بھی کی تھی۔ بچپن میں پاکستان کے دشمن ملک بھارت سے لڑنے اور مادر وطن کے دفاع کی خواہش رکھنے و الے الطاف حسین نے جوانی میں پہنچ کر نہ صرف اسی بھارت سے دوستی کی بلکہ ان پر اسی ملک کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را سے پاکستان کے خلاف مدد لینے کے الزامات بھی عائد ہوئے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ چودہ سال قبل برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے والے ایم کیو ایم کے سربراہ نے 22 اگست سے پہلے بھی کئی بار پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی ہے۔ وہ بھارتی سر زمین پر بھی کھڑے ہو کے پاکستان کے خلاف ایسی زبان استعمال کر چکے ہیں جو کسی بھی محب وطن کے لے انتہائی تکلیف کا باعث تھی۔انہوں نے لندن میں بیٹھ کر ایسی اشتعال اور نفرت انگیز تقاریر کی ہیں جن کا تمام ریکارڈ اس وقت بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحویل میں ہے۔ان کے خلاف نہ صرف پاکستان بلکہ لندن میں بھی متعدد مقدمات درج ہیں جن میں قتل،اشتعال انگیزی،بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ جیسے انتہائی سنگین مقدمات بھی شامل ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان مخالف بیانات ، تقاریر اور ملک دشمن سرگرمیوں کے باوجود ہر بار نظریہ ضرورت سے کام لیا جاتا رہا۔
ماضی کی ہر سیاسی حکومت نے ان کے متنازع ماضی سے آنکھیں چراتے ہوئے انہیں مخلوط حکومت میں شامل کیا اور ہر آمر نے سب سے پہلے پاکستان کی بجائے اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ایک این آر او کے ذریعے الطاف حسین کے خلاف 72 مقدمات ختم کر دئیے جن میں 31 قتل جیسے سنگین جرم کے مقدمات بھی شامل تھے۔ پاکستان کے بارے میں حالیہ ہرزہ سرائی کے بعد قانون نافذ کرنیو الے اداروں کی طرف سے ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بڑے پیمانے پرآپریشن شروع کیا جا چکا ہے،غیر قانونی دفاتر ختم کئے جا رہے ہیں۔
برطانوی حکومت کو ٹھوس شواہد فراہم کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں لیکن یہی وہ وقت ہے جو انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، سارے مہاجروں کو عدم تحفظ کا احساس دلانے اور ایم کیو ایم کو بطور سیاسی جماعت دیوار سے لگانے کی بجائے لندن سے رابطہ توڑنے والے ڈاکٹر فاروق ستار کی بین السطور اس آواز پر کان دھر لئے جائیں کہ انہوں نے پہلے ڈیل نہیں کی ،اب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔


.
تازہ ترین