• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم کے دفاتر میرےحکم  سے مسمار ہوئے، دستور میں تبدیلی اچھی ہے، وزیراعلیٰ

کراچی ( جنگ نیوز) وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ  ایم کیو ایم کے دفاتر میرےحکم  سے مسمار ہو ئے، ایم کیو ایم کے دستور میں تبدیلی اچھی بات  ہے،  5 خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا جو ڈنڈو ں کے سا تھ  توڑ پھوڑ کرتی نظر آئیں، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو کہا کہ خواتین کو ضمانت کے معاملات میں سہولت دیں ،فاروق ستار کا ایم کیو ایم کے آئین میں قائد متحدہ کی ویٹو پاور ختم کرنے کا فیصلہ اچھی بات ہے پارٹی اسی صورت میں چل سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کرنے کا حکم  میری مرضی سے جاری ہوا۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شرجیل میمن اور اویس مظفر ٹپی جلد پاکستان واپس آئیں گے۔ انھیں بھی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پروگرام میں وفاقی حکومت سے شکایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ کی توانائی کمیٹی میں صرف ایک صوبے کا وزیر اعلی موجود ہوتا ہے۔ پروگرام میں مراد علی شاہ کا مزیدکہنا تھا کہ بائیس اگست کو ایم کیو ایم کیو ایم کے ساتھ میٹنگ کی،ان کے تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے تھے۔لیکن اچانک قائد متحدہ کی اشتعال انگیز تقریر ہوئی اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ فاروق ستار کو میری مرضی سے حراست میں لیا گیا تھا تاکہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی شناخت کروائی جا سکے۔ پانچ خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا جو ڈنڈوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کرتی نظر آئیں۔ آئی جی کو کہا گرفتار شدہ خواتین کو ضمانت کے قانونی معاملات میں سہولت دیں ۔ وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ ہم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں، جو قانون کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ فاروق ستار نے قائد متحدہ کی ویٹو پاوور ختم کر کے اچھا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بغیر جماعت نہیں چل سکتی تھی۔ ایم کیو ایم کے تجاوزات پر بنے دفاتر مسمار کرنے کا حکم میری مرضی سے جاری ہوا۔ کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سب کے لئے ہے۔پیپلز پارٹی کا ایک دفتر بھی اس سلسلے میں بند کیا گیا ہے۔مکا چوک کا اصل نام لیاقت علی خان چوک ہمیشہ سے تھا۔ نام میری مرضی سے تبدیل کیا گیا ۔ نیشنل ایکشن پلا ن میں سب سے زیادہ کردار سندھ کاہے۔ آصف حسنین کے حراست میں لئے جانے کے بعد جماعت بدلنے کے فیصلے پر بہت سے لوگوں کو تشویش ہے۔ اس معاملے میں سندھ حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ۔ وسیم اختر کے حوالے سے مراد علی شاہ نے کہا کہ انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہے، رہا کرنا عدالت کا کام ہے۔ قانون میں ہے کہ میئر کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ڈپٹی مئیر فرائض انجام دے سکتا ہے۔ وزیر اعلی بننے کے بعد دفاتر میں دیر سے آنے کے کلچر کا خاتمہ کیا ہے۔ اویس مظفر ٹپی اور شرجیل میمن کی غیر حا ضری کے متعلق وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ ان کی چھٹی وقتا فوقتا اسمبلی سے منظور ہوتی رہی ہے۔ ان کے حلقوں میں ان کی غیر موجودگی میں پیپلز پارٹی نے کام سنبھالا ہوا ہے۔ امید ہے دونوں رہنما کچھ عرصے میں ملک واپس آجائیں گے۔ سندھ میں صحت اور تعلیم کے لئے انتہائی قابل وزراءکو خدمات سونپی ہیں ۔ سندھ میں اساتذہ کی حا ضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم شروع کیا ہے۔ کراچی میں صفائی کی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ کراچی میں سول اسپتال کے سامنے ٹراما  سینٹر اور نارتھ کراچی میں جاپانی حکومت کے تعاون سے بننے والے چلڈرن اسپتال میں جلد کام شروع ہو جائے گا۔مراد علی شاہ نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چند اعتراضات کے باوجودپیپلزپارٹی سی پیک کی مکمل حما یت کرتی ہے۔پاکستان کے توانائی بحران کا حل سندھ میں موجود ہے۔ سندھ میں ایک سو پچاسی بلین ٹن کوئلہ موجود ہے۔وفاقی حکومت سے شکایت ہے کہ کابینہ کی توانائی کی کمیٹی میں صرف ایک وزیر اعلی موجود ہوتے ہیں۔ سب کو بلایا جائے۔ چاہتے ہیں اقتصادی راہداری میں سندھ کے منصوبوں کو اہمیت دی جائے۔ آصف زرداری نے اپنے دور میں چین کے 22دورے کئے۔ این ایف سی کے حوالے سے سوال پر مراد علی شاہ نے کہا کہ ایوارڈ کی معیاد جون 2015 میں ختم ہو گئی۔ این ایف سی پر چار ورکنگ گروپ بنا ئے گئے تھے ۔ سندھ کے گروپ نے اگست 2015 میں اپنی رپورٹ مکمل کر لی۔ ابھی تک تین رپور ٹیں ہوئی ہیں۔ وفاقی حکومت کی رپورٹ نہیں آئی۔وفاقی وزیر خزانہ این ایف سی کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔ 
تازہ ترین