• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو اپنے بانی الطاف حسین کی پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقریر اور کارکنوں کو میڈیا ہائوسز پر حملے کے لئے اکسانے کے واقعے کے بعد اپنے سیاسی کردار کے حوالے سے قوم کے شدید ردعمل کا سامنا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان نے الطاف حسین اور ان کی تقریر سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا ہے پارٹی پر پابندی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ الطاف حسین سے لاتعلقی کے اعلانات حقائق سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی محض ایک سیاسی چال ہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی اپنے بانی سے لاتعلقی اچھی بات ہے لیکن تعلق یا لاتعلقی چھپ نہیں سکتی دس روز بعد ساری چیزیں سامنے آ جائیں گی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ الطاف حسین اتنی جلدی ’’مائنس‘‘ نہیں ہوں گے اور چند روز میں پھر سے منظر عام پر آ جائیں گے ا س صورتحال کا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کی کسی تجویز پر غور نہیں کر رہی جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منتخب جماعتوں پر ماضی کے آمرانہ ادوار میں پابندیاں لگتی رہیں لیکن ان کے منفی نتائج نکلے اور ملک عدم استحکام کا شکار ہوا ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے گا جہاں تک الطاف حسین سے ایم کیو ایم پاکستان کی لاتعلقی کا معاملہ ہے تو اسے عملی شکل دینے کے لئے پارٹی کے دستور میں ترمیم کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور امکان ہے کہ اسے اسی ہفتے الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا جائے گا موجودہ دستور الطاف حسین کی ذات کے گرد گھومتا ہے انہیں پارٹی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے تمام اختیارات حاصل ہیں جنہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ترمیم کے تحت ان کا پارٹی سے ہر طرح کا تعلق ختم کیا جارہا ہے حتیٰ کہ لیٹر پیڈ سے بھی پارٹی کے بانی اور قائد کے طور پر الطاف حسین کا نام ہٹا دیا گیا ہے پاکستان میں ہونے والے فیصلے اب ایم کیو ایم پاکستان ہی کرے گی پارٹی آئین میں اس ترمیم کے بعد بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ الطاف حسین کو اب بھی پارٹی کا مختار کل سمجھا جائے اسی بنا پر ڈاکٹر فاروق ستار نے مطالبہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کو سیاسی سرگرمیوں سے نہ روکا جائے اور پارٹی کے مرکز نائن زیرو کو فوراً کھولا جائےاس سارے پس منظر میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کی کسی تجویز پر غور نہ کرنا ایک خوش آئند قدم ہے وزیر اطلاعات نے درست کہا کہ سیاسی جماعتیں جمہوری پارلیمانی نظام کا لازمی جزو ہوتی ہیں اور قومی یک جہتی کو مستحکم کرنے میں ان کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے ایم کیو ایم کو فی الوقت کراچی اور سندھ کے بعض علاقوں میں موثر مینڈیٹ حاصل ہے وہ ایک بڑی کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہے جو پابندی کے اقدام کو اپنے خلاف امتیازی کارروائی قرار دے سکتی ہے ، ایم کیو ایم کی سیاسی نمائندگی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں اعتراض صرف یہ ہے کہ وہ لسانی عصبیت پھیلاتی ہے اور کراچی میں جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کرتی اور ان کے مقدمے لڑتی ہے نئی صورت حال میں ایم کیو ایم کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی الطاف حسین اور ان کے منفی نظریات سے قطع تعلق کر چکی ہے اور جرائم پیشہ عناصر سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں سیاسی پارٹی پر پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں اس سے مزید مسئلے پیدا ہوتے ہیں معاملہ فہمی کا تقاضا ہے کہ حالات معمول پر لانے کے لئے کوئی درمیانی حل نکالا جائے حکومت ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر نظر رکھے جنہوں نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے ان کا محاسبہ کرے لیکن اس کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کو کسی رکاوٹ کے بغیر کام کرنے دے پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی بہت سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اس لئے جہاں تک ممکن ہو کوئی نیا محاذ کھولنے سے گریز کیا جائے اور جو لوگ ریاست اور حکومت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ان کا خیرمقدم کیا جائے۔

.
تازہ ترین