• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں ایک مدت سے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے مختلف تجاویز آتی رہی ہیں۔ یہ قبائلی علاقے ایک اعتبار سے اپنے طور پر خود مختار رہے ہیں جہاں ایف سی آر کے تحت جرگہ سسٹم نافذ ہے اور قبائلی سرداروں کا عمل دخل بھی رہا ہے۔ بعد میں ان علاقوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دی گئی اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ملک کے ان قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل شروع کیا جائے اور دوسرے حصوں کے برابر لانے کے لئے اصلاحات کی جائیں۔ بدقسمتی سے افغانستان آپریشن کے بعد فاٹا کے بعض علاقے ملکی ا ور غیر ملکی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بن گئے۔ پاک فوج نے’’ضرب عضب‘‘ آپریشن سے بڑی حد تک ان علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کردیا ہے اور اب وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی آباد کاری کا کام جاری ہے۔ اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جامعہ منصوبہ بندی کی گئی ہے اور وزیر اعظم نے فاٹا میں اصلاحات کے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت فاٹا کو ہر سال90ارب روپے مہیا کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ روز روزنامہ جنگ کے پروگرام جرگہ میں صحافی سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں فوری طور پر ضم نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے پانچ سال کا وقت مقرر کیا گیا ہے اور یہ کہ فاٹا کے لئے ایف سی آر اور پاکستانی نظام انصاف کا ملا جلا نظام تیار کیا گیا ہے۔ نئے مروجہ ایکٹ کے تحت جرگہ کا تقرر پولیٹکل ایجنٹ نہیں ایجنسی جج کرے گا اور نیا جرگہ قانون پر عملدرآمد یقینی بنائے گا اور جرگے کے فیصلے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہیں ہوں گے۔ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے، تاہم ضرورت ہے کہ قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی اور اصلاحات کے کاموں کی مؤثر طور پر مانیٹرنگ کی جائے تاکہ یہ علاقے بھی ترقی یافتہ حصوں میں نہ صرف شامل ہوں بلکہ فاٹا میں تبدیلی بھی آئے!!

.
تازہ ترین