• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی نسل، اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر فخر کرنا معیوب نہیں بلکہ انسانی فطرت اور جبلت کا حصہ ہے ۔ اس سے نہ دین روکتا ہے اور نہ پاکستانیت ۔ سندھی اگر سندھی ہونے پر ، پنجابی اگر پنجابی ہونے پر ، بلوچ، اگر بلوچ ہونے پر ، سرائیکی اگر سرائیکی ہونے پر،کشمیری اگر کشمیری ہونے پر یااردو بولنے والا اگر مہاجر ہونے پر فخر کرے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ وہ اگر اپنی زبان اوراپنی ثقافت سے پیارکرتے ہوئے اس کی ترقی کے لئے جتن کرے تو نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔ جو اپنے گھر کا وفادار نہ ہو، وہ محلے اور گائوں کا وفادار نہیں ہوسکتا ، جو اپنے گائوں کا وفادار نہ ہو ، اپنے علاقے کا نہیں ہوسکتا اور جو اپنے علاقے کا وفادار نہیں ہو ، اپنے ملک کا نہیں ہوسکتا ۔ ہر نیک کام اپنی ذات اور گھر سے شروع ہوتا ہے ۔ اس لئے کوئی پاکستانی اگر اپنے ہم زبانوں کے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتاتو وہ پاکستان کے حق کے لئے بھی نہیں لڑسکتا اور کوئی اگر اپنے علاقے اور اپنے ہم زبانوں اور ہم نسلوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتاتو وہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف بھی میدان میں نہیں آسکتا ۔تاہم یہ نہایت نازک معاملہ ہے۔ جس طرح مصلحت اور منافقت یا حکمت اور بزدلی دو متضاد افعال ہیں لیکن دونوں کے مابین نہایت باریک فرق ہے ، اسی طرح قوم دوستی اور قوم دشمنی بھی دو متضاد افعال ہیں اور دونوں میں نہایت باریک فرق ہے ۔ اگر مصلحت ، حد سے بڑھ جائے تو منافقت بن جاتی ہے اور حکمت ، حد سے بڑھ جائے تو بزدلی بن جاتی ہے ، اسی طرح اپنی نسل، زبان اور ثقافت سے محبت میں بھی اگر غلو آجائے تو قوم کے فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بن جاتا ہے ۔ جس قدر اپنی نسل پر فخر مستحسن ہے ، اس قدر دوسرے کی نسل کو کمتر سمجھنا یا اس کی تحقیر کرنا قبیح عمل ہے ۔ جس طرح اپنی زبان پر فخر کرنا اور اس کی ترویج کے لئے کوشش کرنا ، قابل قدر ہے ، اس طرح کسی دوسرے کی زبا ن کی تحقیر کرنا یا اس کی زبان کو نقصان پہنچانا ، قابل مذمت عمل ہے ۔ جس طرح اپنی ثقافت کو سینے سے لگا کے رکھنا اور اس کے مثبت عناصر کی ترقی کے لئے کام کرنا عظیم قومی خدمت ہے ، اس طرح دوسرے کی ثقافت کو حقیر سمجھنا قومی جرم ہے ۔ جس طرح اپنی قوم ، علاقے یا صوبے کے حق کے لئے آواز اٹھانا فرض ہے ، اسی طرح کسی دوسرے کی حق تلفی کرنا جرم عظیم ہے۔ گویا قوم پرستی (مروجہ معنوں میں نہ کہ خالص تکنیکی معنوں میں ۔ یہاں ’’پرست ‘‘قطعاً ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا جو خداپرستی اورآتش پرستی وغیرہ کے سلسلے میں کیا جاتا ہے) ایک متحسن جذبہ ہے بشرطیکہ وہ انسانی اخلاقیات ، اسلام اور پاکستانیت کے دائروں میں بند ہو لیکن اگر وہ دوسروں سے نفرت، دوسرو ں کی تحقیر اور دوسروں کی حق تلفی تک دراز ہوجائے تو پھر اس سے مکروہ اور غلیظ جذبہ کوئی نہیں ۔ مثلاً باچا خان پختونوں کے لحاظ سے ایک حقیقی قوم پرست تھے ۔ اس لئے انہوں نے ان کے حق کی بات تو کی لیکن دوسروں کی حق تلفی کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے پختونوں کو اپنی زبان اور کلچر پر فخر کرنا سکھایا لیکن دوسروں کی تحقیر کی اور نہ دوسروں سے نفرت کا درس دیا۔ وہ پختونوں کے آئینی اور قانونی حقوق حاصل کرنے کے لئے تو مگن رہے لیکن کبھی قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی ۔ دوسروں سے لڑوانے کی بجائے انہوں نے پختون جیسی جنگجو قوم کو عدم تشدد کا درس دیا۔ ذاتی فائدے کے لئے کسی غیرقوم سے ساز باز نہیں کی لیکن قوم کے فائدے کے لئے ہر کسی سے مکالمہ اور تعاون کیا۔ خود زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا لیکن اپنی سہولت کے لئے کبھی بھی اپنی قوم کو آزمائش میں نہیں ڈالا۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تو پختونوں کے بچوں کو بھی لکھنے پڑھنے کی نصیحت کرتے رہے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بساط بھر کوششیں کیں ۔ ان کی زبان سے کبھی کسی نے پنجابی ، سندھی یا بلوچ وغیرہ کے لئے گالی نہیں سنی لیکن خود کبھی کسی پنجابی یا فوجی حکمران کے حکومتی دسترخوان سے مستفید نہیںہوئے ۔ لیکن دوسری طرف آج کے مہاجر، پختون، سندھی اور بلوچ قوم پرست ہیں ،جن کی قوم پرستی دوسرے سے نفرت اور گالی سے شروع ہوتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جس قومیت کے حقوق کے علمبردار بن کر میدان میں نکلتے ہیں ، اسی قومیت کے لئے مزید مصیبتوں کا باعث بنتے ہیں ۔ الطاف حسین صاحب کی مثال لے لیجئے ۔انہوں نے مہاجروں کے جائز حقوق تک اپنے مطالبے کو محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں سے نفرت کو اپنی قوم پرستی کی بنیاد بنا لیا۔ علم، محنت ، ادب اور فن کے میدانوں کے سرخیل سمجھے جانے والے ان مہاجروں کو انہوں نے باری باری پختونوں سے بھی لڑوایا، پنجابیوں سے بھی ، سندھیوں سے بھی، بلوچوں سے بھی اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی ۔ ان لوگوں کو دوسروں سے نفرت سکھائی اور جواباًپاکستان کے ان محسنوں کو بھی دوسروں سے نفرت ملی لیکن الطاف صاحب نے پنجابی نواز شریف سے بھی ہاتھ ملایا، سندھی آصف علی زرداری کے دسترخوان سے بھی کھایا، پختون ولی خان کو بھی بھائی بنایا اور اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں یعنی جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی بھی خدمت کی ۔ ان کی سیاست نے کراچی کو اس کا حق تو نہیں دلوایا لیکن اسے الٹا تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ روشنیوں کے شہر کو خوف اور دہشت کا مسکن بنا دیا ۔ اس تعلیم یافتہ قوم کے تعلیم یافتہ شہر تعلیمی انحطاط کی آخری حدوں کو چھونے لگے ۔ ہر حکومت میں شامل رہے لیکن نہ کوٹہ سسٹم ختم کرسکے اور نہ کسی مہاجر کو وزیراعلیٰ بناسکے ۔ خود سالوں سے برطانیہ میں مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو باری باری ، ایک ایک قوت سے پٹواتے رہے ۔ آج یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ لندن کے محل میں حواس باختگی کے عالم میں ،اپنی انا کی تسکین کے لئے جو بھی لفظ منہ سے نکالتا ہے تو وہ ان کی قوم کے لئے ہزیمت اور مصیبتوں کا باعث بن جاتا ہے ۔ دوسری طرف پختون قوم پرست محترم اچکزئی صاحب کی قوم پرستی ملاحظہ کیجئے ۔اپنے لوگوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ آج بھی سوشل میڈیا، ان کے کارکنوں کی طرف سے پنجاب اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھرا پڑا ہے ۔ ہم جیسے پختون جو کہ ان کے پنجابی قوم پرست میاں نوازشریف کے ساتھ پختونوں کے حقوق کی قیمت پر ساز باز پر معترض ہیں کو بھی گالم گلوچ اور پنجاب کے ایجنٹ کے القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن خود وہ میاں نوازشریف کی دوستی کی خاطر چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے معاملے میں پختونوں کے ساتھ ہونے والی سب سے بڑی اور تاریخی زیادتی پر خاموش رہے بلکہ جب اے این پی جیسی جماعتوں اور ہم جیسے قلم کے مزدوروں نے میاں نوازشریف کی اس زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی تو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اچکزئی صاحب یہ طعنہ دینے لگے کہ بعض لوگ سی پیک کے نام پر سیاست اور صحافت چمکا رہے ہیں ۔جب میاں نوازشریف نے ژوب میں ایک سڑک کے افتتاح کو سی پیک کے مغربی روٹ کے افتتاح کا نام دے کر قوم کو گمراہ کرنا چاہا تو اچکزئی صاحب جیسے زیرک اور ذہین ترین انسان اس موقع پر ان کے ساتھ کھڑے ہوکر قرآنی آیات کا سہارا لے کر پختونوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے اس عمل کا حصہ رہے ۔ باچا خان کے پیروکاروں نے تو طالبان سے اپنے آپ کو سینکڑوں کی تعداد میں مروا دیا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان سب سے زیادہ ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں سے ان کی جماعت کو ووٹ ملتے ہیں اور جہاں ان کی پارٹی کی حکمرانی ہے لیکن آج تک ہم نے ان علاقوں میں ان کی طرف سے طالبان کے خلاف یا طالبان کی طرف سے ان کے خلاف کسی مزاحمت کا نہیں سنا لیکن دوسری طرف وہ طالبان اور افغانستان کے ایشو پر ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں کہ جن کی وجہ سے لوگ پختونوں کی حب الوطنی سے متعلق سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ ان کے ایک سینیٹر اپنے فیس بک پر پنجاب اور فوج سے لوگوں کو متنفر کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کی پارٹی کے وزیر نصراللہ زیرے نے کچھ لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے اپنے موبائل کا رنگ ٹون پاکستان کا ملی نغمہ بنا لیا ہے ۔ اسی طرح اس دور میں انتہاپسند قوم پرست اور علاقہ پرست کوئی ہیں تو وہ میاں نوازشریف صاحب ہیں ۔ وہ بظاہر بات پاکستان کی کرتے ہیں لیکن دوسرے صوبوں اور دوسرے علاقوں کی حق تلفی کرکے وہ سب کچھ اپنے علاقے میں سمیٹ کے لارہے ہیں۔ انہوں نے تمام اہم وزارتیں ایک مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دی ہیں ۔ بیوروکریسی میں تمام اہم مناصب پر اسی علاقے کے لوگوں کو بٹھا رکھا ہے۔پختونخوا، بلوچستان اور فاٹا کو باقی پاکستان کی طرح قومی دھارے میں لانے کا جو موقع اللہ تعالیٰ نے سی پیک کی صورت میں دیا تھا ، اس تعصب کی بنیاد پر انہوں نے اس کے تمام ثمرات کو بھی اس مخصوص علاقے کی طرف موڑ دیا ۔ اور تو اور وہ جنوبی پنجاب کے حصے کے وسائل کو بھی لاہور منتقل کررہے ہیں ۔ وہ جوکچھ کررہے ہیں اپنے علاقائی اور سیاسی مفادات کے لئے کررہے ہیں لیکن ان کے ان متعصبانہ اقدامات کی گالی اس غریب اور عام پنجابی کو پڑ رہی ہے جو اسی طرح مظلوم ہے جس طرح کہ دیگر علاقوں کے غریب مظلوم ہیں ۔ نہ جانے یہ قوم کب سمجھے گی اور کب یہ حقیقی دوست اور حقیقی دشمن کی پہچان کرسکے گی۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں میرے لئے تو کسی بھی قوم کا خیرخواہ ، اس کا وہی لیڈر ہے جو اس کو کھوکھلے نعروں کا شکار بنانے کی بجائے ، حقیقت پسند بنادے ۔ جو اپنی قوم کے لئے نفرتوں کی بجائے محبتوں کو سمیٹے ، جو اس کے لئے تعلیم ، روزگار اور کاروبار کا بندوبست کرے ، جو اس قوم کے ہر بچے کو بھی وہ راستہ دکھائے جو اپنے بچوں کو دکھاتا ہے اور جو خود تو عزیمت کے راستے پر عمل کرے لیکن اپنی قوم کو رخصت، حکمت، محنت اور حقیقت پسندی کے راستے کا درس دے ۔


.
تازہ ترین