• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1988ء میں افغانستان سے روسی قابض افواج کا انخلاء شروع ہوا تو یہ مقبوضہ کشمیر میں عشروں کی خاموشی (خصوصاً شملہ معاہدے) کے بعد ایک نئی تحریک شروع ہونے کا آغاز بن گیا تھا۔ (1990-91) میں مقبوضہ کشمیر میں فلسطین کی ’’انتفادہ ‘‘کی طرز پر مکمل پرامن جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا آغاز ہوگیا۔ بھارت سے آزادی کی متمنی تمام ہی کشمیری تنظیمیں سرگرم ہونے لگیں جن سے حریت کانفرنس کا متحدہ پلیٹ فارم تیار ہوا۔ کشمیریوں کی یہی جدوجہد، سوویت ایمپائرکے خاتمے کا پس منظر بھی بنی۔یایوں سمجھیں کہ افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کا آغاز مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی تحریک آزادی کا پس منظر بنا۔ یہی وہ وقت ہے جب سوویت ریاست جارجیا میں گرجے کھولنے کا مطالبہ آزادی کے مطالبے میں تبدیل ہوگیا اورپھر تین سوویت ریاستوں استھونیا، لیٹویا اور لتھوانیا پر مشتمل پورا بالٹک ریجن سوویت یونین سے آزاد ہوا۔ 13جون 1990ء سے دیوار برلن کا انہدام شروع ہوگیا۔ اس سے بھی قبل 1989ء میں ایران میں صدیوں پرانی بادشاہت کا خاتمہ ہوا جسے جدید دور میں مکمل امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔ اسی سال میں پولینڈ میں مزدوروں کی تنظیم سالیڈیریٹی سرگرم ہوئی اس نے پہلے گوشت کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کر کے پہلے عوام کو ساتھ ملایا۔گرجا گھر کھولنے کا زوردار مطالبہ کردیا۔ مئی 2008ء میں نیپال میں بتدریج ہوتے ہوئے ملوکیت (بادشاہت) کا مکمل خاتمہ ہوا اور یہ جمہوریہ بن گیا۔ اگست 1999ء میں ایسٹ تیمور کی عیسائی اکثریت کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم ہوا اور یہ انڈونیشیا سے الگ ہو کر آزاد مملکت بن گیا۔ سوڈان میں شمالی اورجنوبی ریجن کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی ایک عشرے کی خانہ جنگی کے بعد جنوبی سوڈان کی عیسائی اکثریت کے مطالبے اورامریکہ و یورپ کی اس کے لئے تائید پر ریفرنڈم ہوا اور 2011ء کے سرما میں جنوبی سوڈان ’’ڈارفر‘‘ کے نام سے سوڈان سے علیحدہ ہو کر الگ وطن بن گیا۔ گویا اب پاکستان اوراسرائیل ہی مذہب کے نام پر بنی مملکتیں نہیں ہیں، ان میں ایسٹ تیمور اور ڈارفر بھی شامل ہیں جو ’’عیسائی اکثریت‘‘ کی بنیاد پر حق خودارادیت استعمال کرتے ہوئے وجود میں آئے۔روسی ریاست جارجیا اور پولینڈ میں بھی حصول آزادی کی طرف بڑھتے تحریکیوں کے قدم تیز تر ہوگئے جب انہوں نے گرجے کھول کر عبادت کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ قیام پاکستان تو خیراس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ ہم ہر اعتبار سے ہندوئوں اور ہندو ہم سے الگ تھلگ تھے جس کی بنیاد پر ہندو کے انتہا کے تعصب نے پاکستان ہی بنانا تھا۔ آج بھی بھارت کی نئی سیکولر نسل کا رونا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے پبلک مقامات پرالگ الگ ’’مسلم پانی‘‘ اور ’’ہندوپانی‘‘ بٹوارے کا باعث بنا اورپاکستان بنا۔ لیکن مودی کو تو پاکستان بننے کا غم آزادی کے بعد کسی بھی بھارتی رہنما سے زیادہ ہے، اسے یہ بھی گوارا نہیں کہ (آئینی طور پر) سیکولر بھارت میں مسلمان گائے کا تو کیا، کوئی بھی گوشت کھائیں، تواس کے پیروکار گائے کے تقدس کی پامالی کا الزام لگا کر قتل بھی کرسکتے ہیں اور ہراساں تو بھارت کی تقریباً 15 فیصد مسلمان آبادی اس کے برسراقتدار آنے سے مسلسل ہے۔ دلت اور سکھ بھی، جو اب اٹھ رہے ہیں۔ سرداروں کو تو پھر انندپور ریزولیشن کی ہوک اٹھی ہے، جو اسے پاکستان کی ’’قرارداد لاہور‘‘ کے درجے پر لیتے ہیں، جس کی منظوری پر لاہور کے ہندو پریس نے چیخ و پکار کر کے اسے قرارداد لاہور نہیں بلکہ ’’قرارداد پاکستان‘‘ قراردیا تو پھر پاکستان بھی بن گیا۔
یہ ہے حق خودارادیت کے استعمال اور حصول آزادی کا وہ پس منظر جو کوئی قدیم تاریخ کے ابواب ہیں، فقط گزرے 25 سال کی سچی اورنتیجہ خیز کہانیاں ہیں۔ اس پس منظر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اپنی سات لاکھ فوج کے دہشت گردانہ استعمال سے کشمیریوں کی مکمل مقامی اور پرامن تحریک آزادی کودبائے رکھنے میں تیزی سے ناکام ہورہی ہے۔ کشمیریوں کودنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت نئی دہلی میں تعینات میڈیا کے درجنوں نمائندوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے کہ سرینگر کو رپورٹ کرنا ہے تو اپنے رسک پر کرو۔ ’’وہاں پاکستان دہشت گردی کررہا ہے‘‘۔ ماہ پاکستان میں جواں سال کشمیری رہنمابرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی جو لہر مقبوضہ کشمیر میں چلی ہے، اسے دبانے کے لئے بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت اس پر تشویش کا اظہار اورمذاکرات شروع کرنے کا زور اہم ترین عالمی حلقوں سے ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ امریکہ، چین، ترکی، او آئی سی، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اس پربول رہی ہیں۔اس سے زیادہ حالات اور کیا سازگار ہوں گے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو دوبارہ مکمل بین الاقوامی مسئلہ بنائے جبکہ اقوام متحدہ کی دوواضح قراردادیں رائے شماری سے مسئلہ حل کرنے کی منظوری دے چکی ہیں جو اقوام متحدہ کے فقط ریکارڈ میں رہتے ہوئے اس کی ساکھ اور اعتبار کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
پاکستان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلے کو پورے زور و شور سے اٹھانے کی تیار ی کرے جس کا آغاز گزشتہ سال ہوگیا تھا۔ دیر آید درست آید۔ وزیراعظم نوازشریف نے عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی حساسیت اورمقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے عالمی برادری کی آگاہی کے لئے 22 اراکین کے وفود بھیجنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ پاکستان کی فوری اوربڑی سفارتی ضرورت ہے، جس کا پورا کرنا قابل قدر ہے۔ لیکن اس کے تین پہلو پارلیمانی مشن کی کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ ایک یہ کہ وفود پاکستانی پارلیمان کے مکمل نمائندہ ہوں، یعنی ہر وفد میں ہر پارلیمانی گروپ کا کم از کم ایک نمائندہ ضرور ہو۔ یہ صرف خانہ پری نہ ہو، تمام ارکان کے انتخاب موضوع کے لئے مطلوب پوٹینشل کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ خاکسار1990ء گرما میں ایسے ہی ایک پارلیمانی وفد میں بطور میڈیا منیجر میں شامل تھا۔ یہ پارلیمانی وفد مقبوضہ کشمیر میں شروع ہوئی پرامن تحریک اور اس پر شروع ہونے والے مظالم سے آگاہی کے لئے 8اہم اسلامی ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت، وزراء خارجہ، ایڈیٹروں، دانشوروں اور اہم طبقات کے نمائندگان سے ملاقاتوں کے لئے تیار کیا گیا تھا جس میں ہر پارلیمانی گروپ کے اراکین اسمبلی، سینیٹر یا میئر اور ان سب کو مختلف نوعیت کی معاونت دینے والے معاونین، ہر ملاقات میں میزبانوںکی طرف سے خوش آمدید کے بعد وفد کی توصیف ہوتی کہ یہ پاکستان کے عوام کا حقیقی اور متاثر کن وفد ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی برابرنمائندگی ہے۔ یہ محترمہ بے نظیر کا دوسرا دور تھا۔ جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کی سربراہی میں وفد میں ترکی اورعربی کے اعلیٰ معیارکے مترجم بھی معاون تھے۔ اس سے بوکھلا کر بھارت نے ابوالکلام آزاد کی نواسی (یا پوتی) کی سربراہی میںزیادہ تر مسلمان اراکین پارلیمان کا وفد توڑنے کے لئے بھیجا، لیکن جو کامیابی پاکستانی وفد کوملی اس نے تحریک آزادی کشمیر کوبےپناہ تقویت پہنچائی جوبڑی تیزی سے گیئر اپ ہوئی، لیکن ساری ہوتی کامیابیوں کو نائن الیون کھا گیا۔
جوبھی پارلیمانی وفود بھیجے جارہے ہیں، ان کی کامیابی کا انحصار ان ٹاکنگ پوائنٹس اوراس لٹریچر پربہت ہوگا جس کا فالواپ بشکل ٹارگٹ، آڈینس سے مسلسل رابطہ، مسئلہ کشمیر کوبہت جلد بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے اور اس کی عالمی حیثیت بنانے میں معاون ہوگا۔ (وما علینا الاالبلاغ)


.
تازہ ترین