• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو قائم ہوئے 70برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ مگر ہمارا صحت کا نظام اور شعبہ تعلیم آج بھی مختلف تجربات کی زد میں ہے۔ انگریزوں نے ہمارے اس خطے میں ہر طرح کے تعلیمی اور صحت کے ادارے قائم کئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی ساکھ، معیار اور ان کی سہولتیں بڑھاتے مگر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان اداروں کو ناصرف خراب کیا بلکہ ان کی ساکھ کوبھی متاثر کیا۔ آج ہر ادارہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ہائی جین 1948ء میں ایک ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد عوام کو مختلف بیماریوں کے بارے میں آگاہی ، معلومات اور تربیت دینا تھا۔ پھر اس کا نام کالج آف کمیونٹی میڈیسن ہوگیا۔ پھر اس کا نام انسٹی ٹیوٹ پبلک ہیلتھ ہوگیا اور اب حکومت نے اس کا نام پبلک ہیلتھ ایجنسی رکھنے کافیصلہ کرلیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ادارے کے نام تبدیل ہوتے رہے مگر عوام کو کچھ نہ ملا اور نہ اس ادارے نے ملکی سطح پر کوئی قابل ذکر کردار ادا کیا حالانکہ اس کی ذمہ داریاں بہت تھیں۔ کچھ لوگ اس ادارے میں بہت اچھے اور محنتی بھی آئے جیسے تحریک پاکستان کے دیرینہ کارکن ڈاکٹر ایم اے صوفی نے کافی کام کیا مگر اس ادارے کی سرگرمیاں پھر بھی سامنے نہ آئیں۔
اس ادارے کے ذمہ کسی بھی وبائی بیماری مثلاً ڈینگی، کانگو وائرس، زیکا وائرس، ٹائیفائیڈ، ہیضہ ، ملیریا وغیرہ کی لوگوں کو معلومات دینا اور اس سے بچائو شامل تھا۔ اور کچھ ڈپلومہ کورسز بھی کرانا شامل ہیں۔ یہ ادارہ ایک اہم فریضہ ڈاکٹرزرفشاں طاہر بیکرٹوجسٹ کی نگرانی میں بھی سرانجام رہا ہے۔وہ ہے بائولے کتے کے کاٹے کی علاج گاہ ۔یہ علاج گاہ بھی کافی پرانی ہے اور اب تک ہزاروں افراد یہاں سے پچھلے 65برس میں علاج کرا چکے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی پانچ سے سات ہزار افراد سالانہ پاگل کتے کے کاٹے سے مر جاتےہیں جو کہ ایک بڑی شرح ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ایک مدت سے اس ادارے کی کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں اور اکثر وہ اپنی میٹنگوں میں اس کا اظہار بھی کر چکے تھے بلکہ اس کے تین ڈین تو انہوں نے حسب روایت کھڑے کھڑے او ایس ڈی اور ٹرانسفر بھی کردیئے ۔ مگر اس ادارے کی کارکردگی بہتر نہ ہو سکی۔سو اب حکومت نے ایک پالیسی بنائی ہے کہ اس ادارے کو ناصرف اپ گریڈ کیا جائے گا بلکہ اسے دنیا کا بہترین ادارہ بھی بنایا جائیگا۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس کا ایک حصہ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کے ماتحت کردیا جائے گا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی بھی کارکردگی سے نالاں ہیں اخباری بیانات اور میٹنگوں میں کہہ چکے ہیں کہ اس ادارے کی کارکردگی تسلی بخش نہیں اور ڈی جی ہیلتھ کی بھی دو مرتبہ سرزنش کر چکے ہیں۔
جس ادارے کے کام کو آپ خود تسلی بخش قرار نہیں دے رہے، تو پھر اس کوپبلک ہیلتھ ایجنسی کا ایک حصہ دینا، کہاں کی عقل مندی ہے؟ مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور پارلیمانی سیکرٹری صحت عمران نذیر کا کہنا ہے کہ حکومت اس ادارے کو دنیا کا بہترین ادارہ بنانے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کرے گی۔ باہر سے لوگ بلائے جائیں گے اگر حکومت یہ کرنا چاہتی ہے تو پھر اِس ادارے کا سربراہ بھی بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا چاہئے، جبکہ موجودہ ڈی جی ہیلتھ خود 19ویں گریڈ میں ہیں اور 20گریڈ کی پوسٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ میرٹ کا مذاق نہیں۔ پھر کیا یہ شرط ہے کہ ڈی جی ہیلتھ ہمیشہ صرف جنرل کیڈر سے آئے۔؟ آپ جب نئے نئے تجربے کر رہے ہیں تو پھر کیوں نہیں اس مرتبہ ڈی جی ہیلتھ کسی سینئر پروفیسر کو لگا دیتے؟ ہمارے خیال میں یقیناً اس کے اچھے نتائج آئیں گے۔
جب آپ پبلک ہیلتھ ایجنسی کو بنانے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، تو پھر اس کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کر دیں، کیونکہ کنگ ایڈورڈ برصغیر میں میڈیکل کی تعلیم کا پہلا اور قدیم ترین ادارہ ہے۔ ویسے بھی یونیورسٹی کا کام ریسرچ کرنا ہوتا ہے اور اس میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ ٹیچنگ اسپتال بھی ہیں، یہاں پر رنگ رنگ کے اور پیچیدہ بیماریوں کے مریض آتے ہیں۔ جن کے بارے میں بڑی مفید معلومات حاصل کر کے ریسرچ میں مدد لی جا سکتی ہے۔
لیں جناب پی ایم ڈی سی نے 15نئے نجی میڈیکل کالجز کو پورے ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پہلے ہی ملک میں موجود نجی میڈیکل کالجوں کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ بے شمار پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پاس پوری فیکلٹی نہیں۔ ایک ایک استاد کئی کئی میڈیکل کالجوں میں جا کر پڑھا رہا ہے۔ پھر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی لوٹ کھسوٹ آسمان پر ہے۔ آج ہر پرائیویٹ میڈیکل کالج سالانہ آٹھ سے دس لاکھ روپے فیس لے رہا ہے، یعنی ہر پرائیویٹ میڈیکل کالج ایک طالب علم سے پانچ برسوں میں پچاس لاکھ روپے لے لیتا ہے، پھر آئوٹ آف میرٹ جو داخلے کئے جا رہے ہیں اور یہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز جس قسم کے ڈاکٹرز پیدا کر رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔
پہلے بھی پی ایم ڈی سی چاہئےکے ایک سابق صدر نے اپنے دور میں بے شمار غیر معیاری میڈیکل کالجز قائم کرنے کی اجازت دی تھی اور اب پھر یہی صورت حال ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی پالیسی بنائے اور کوئی چیک سسٹم بنائے۔ حکومت بہت سارے معاملات سے چشم پوشی کرتی رہتی ہے جب کوئی مسئلہ شدت اختیار کرتا ہے تو حکومت ایکشن لیتی ہے۔ اس وقت شاید ہی چند ایک پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پاس پی ایم ڈی سی کے مقررکردہ معیار کے ٹیچنگ اسپتال ہوں۔صوبہ پنجاب میں حکومت انسانی اعضاکی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف سرگرم ہو گئی ہے۔
حکومت نے انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف قانون سازی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب کوئی بھی پرائیویٹ اسپتال جب اس قسم کی غیر قانونی حرکت کرے گا تو اس کو 5کروڑ روپے جرمانہ ہوگا اور اسپتال کے تمام اثاثہ جات ضبط کر لئے جائیں گے۔ دوسرا حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کی نشاندہی کرنے والے شخص کو دس لاکھ روپے انعام دیا جائے گا اور اس کانام خفیہ رکھا جائے گا۔ حکومت کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہے کہ غیر قانونی پیوند کاری کے خلاف سخت ترین ایکشن ہوگا۔ ویسے کے ای ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود جو کہ اعضا کی پیوند کاری کمیٹی کے بھی چیئرمین ہیں انہوں نے اب تک کوئی پیوند کاری قانون اور قاعدے سے ہٹ کر نہیں ہونے دی جس کے لئے وہ لائق تحسین ہیں، حالانکہ ان پر بڑا دبائو ہوتا ہے مگر وہ میرٹ پر کام کرتے ہیں۔ پیوند کاری کے بارے میں قانون یہ کہتا ہے صرف سگے رشتہ دار یعنی باپ، بیٹا، بھائی، بہن، ماں اور بیٹی ہی گردہ، جگر، دل اور پھیپھڑے وغیرہ دے سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کےوالد کو گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہے اور اس کی اولاد اس قابل نہیں کہ گردہ عطیہ کرسکے یا اس کی اولاد نہیں یا اولاد گردہ نہیں دینا چاہتی تو اس صورت میں کیا قانون ضرورت مند کو کسی غیر رشتہ دار یا دور کے رشتہ دار کا گردہ، جگر لینے کی اجازت دے گا؟ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا آرگن ٹرانسپلانٹ کمیٹی کیس سن کر اجازت دے سکتی ہے؟ اور یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کا اغوا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن شاید بچوں کے گردے اس معیار تک نہیں پہنچے ہوتے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت صحت کے حوالے سے ایسے اقدامات کرے اور لوگوں کو آگاہی دلائے کہ ان کے گردے، جگر خراب نہ ہوں۔ اگر بروقت گردوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں تو انسان کئی پیچیدگیوں سے بچ سکتا ہے۔ اس طرح ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسین بھی لازمی کرانے کا قانون بنایا جائے جس طرح کسی بھی میڈیکل کالج میں کوئی طالب علم یا طالبہ اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتا یا ہوسکتی جب تک وہ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لگوانے کا سرٹیفکیٹ نہ پیش کردے۔ اس طرح حکومت کا فرض ہے کہ گردوں کے ٹیسٹوں کے بارے میں میڈیا میں بتائیں، اشتہارات دیں تاکہ لوگ ان دونوں موذی امراض سے بچ سکیں۔


.
تازہ ترین