• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تسخیر کائنات کا خوگر انسان جس کی علمی و فکری جستجو کا سفر پیہم جاری و ساری ہے،بذات خود چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپا ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو پایا۔ارسطو کا خیال ہے کہ انسان ’’حیوان ناطق ہے‘‘۔روسو نے انسان کو ایک وحشی قراردیا جسے سدھایا اور سکھایا جا سکتا ہے۔تھامس ہابز سے پوچھیں تو معلوم ہوتا ہے انسان بھیڑیئے کی صفات کا حامل ہے۔ڈارون انسان کو بندر کی ارتقائی شکل قرار دیتا ہے۔فرائیڈ کو حضرت انساں میں ماسوائے جنسی جبلت کے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔سارترتو انسان کو اشرف المخلوقات تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے اور اس کا اصرار ہے کہ انسان نہ صرف حیوان ہے بلکہ عقل و خرد سے بھی عاری ہے۔ڈیکارٹ کو انسان میں جذبات و احساسات دکھائی نہیں دیتے اور وہ کہتا ہے کہ انسان بس ایک مشین ہے جب تک پُرزے سلامت رہتے ہیں تب تک زندگی کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے ۔طرفہ تماشا تو دیکھئے کہ وہ انسان جو خود مرقع ِحسن اور شاہکار تخلیق ہے اور زمانے بھر کی کھوج میں مارا مارا پھرتا ہے ،خود اپنا سراغ زندگی نہیں پا سکا۔جوع الارض کا مارا انسان نت نئی دنیا مسخر کررہا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے وہی اس کائنات کا سب سے بڑا سچ اورحق ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس لافانی اور جاودانی انسان کو شکست ہو ہی نہیں سکتی مگر جب موت آتی ہے تو یوں صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ہم انسانوں کے درمیان اختلافات کی سینکڑوں اور ہزاروں نہیں لاکھوں بنیادیں ہیں۔،رنگ، نسل ،قومیت ،مسالک ،فرقے ،مذاہب ،عقیدہ ،ایمان ،سیاست ،معاشرت سمیت انتشار و افتراق کی بیشمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ہو سکتا ہے آپ لادینیت کے قائل ہوں ،عین ممکن ہے آپ خدا کے وجود سے انکار ی ہوں مگر ایک نکتہ ہے جس پر کوئی تفریق نہیں ۔اطالوی کہاوت ہے،6فٹ زمین کا ٹکڑا(قبر) دنیا بھر کے انسانوں کو یکسانیت و یک رنگی کا پیغام دیتا ہے۔جنہیں زندگی بعد از موت پر یقین نہیں ،انہیں بھی ایمان کی حد تک یقین ہے کہ یہ زندگی فانی ہے۔
موت کا تصور یقینا خوفناک ہے مگر میرے دانست میں اپنے پیارو ں کے بے جان لاشوں کو لحد میں اترتے دیکھنا ا س سے کہیں زیادہ دہشت ناک ہے۔جب کوئی اپنا رخصت ہوتا ہے تو ہم جیتے جی مر جاتے ہیں۔انسان بھی کتنا کم ظرف ہے ،جب کوئی مرتا ہے اور ہم پرسہ دینے جاتے ہیں ،مرنے والے کے اہلخانہ سے گلے لگ کر روتے ہیں تو دراصل ہم اپنے پیاروں کویاد کرکے رو رہے ہوتے ہیں۔چند روز قبل عزیز از جان رفیق الزماںغوری فوت ہوئے تو یہی کیفیت تھی۔انہیں قبر میں اتارا جا رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر تھا جب 8برس پہلے میرے والد گرامی محمد نواز غوری رخصت ہوئے۔رفیق غوری صحافت کا انتہائی معتبر حوالہ تھے۔اگر نوجوان صحافی حق گوئی و بیباکی کا مفہوم جاننا چاہتے ہیں تو لغت دیکھنے کے بجائے رفیق غوری کی کتاب زیست کا مطالعہ کریں۔جب پرویز مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا تو پہلی پریس کانفرنس میں رفیق غوری نے یہ سوال کرنے کی جرات کی کہ آپ کب واپس جارہے ہیں۔اس گستاخی کی پاداش میں جمہوریت پر یقین رکھنے والے رفیق غوری پر زندگی کی راہیں مسدود کر دی گئیں اور ان کے اہلخانہ نے وہ دن بھی دیکھے جب لاہور جیسے ترقی یافتہ شہر میں برقی قمقموں کے بجائے موم بتیوں پر انحصار کرنا پڑا ۔میں نے ان کی زندگی کے یہ آخری ماہ و سال بہت قریب سے دیکھے ۔ابتلا و آزمائش کا یہ دور تو کوئی نئی بات نہ تھی مگر اس مرتبہ دوستی کا دم بھرنے والوں کی کج ادائی اور بے وفائی نے تکلیف کی شدت کچھ اور بڑھا دی۔
رفیق غوری کے گھر تعزیت کرنے کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ۔بہت معروف اورقابل ذکر افراد اظہار افسوس کرنے کے لئے آ رہے تھے کہ اسی اثناء میں مرحوم رفیق غوری کا پانچ سالہ پوتا احمد دوڑتا آیا اور کہنے لگا ،اگر میرے دادا ابو زندہ ہوتے تو اپنے ڈھیر سارے دوستوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کتنا خوش ہوتے ۔میں اس وقت سے یہ سوچ رہاہوں کہ اس معصوم بچے نے کتنی گہری بات کی ہے اور ہم سب کو فوڈ فار تھاٹ فراہم کی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا توجہ ،احتیاج ،رفاقت اور وقت کے حصول کے لئے مرنا ضروری ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ انسان تب مرتا ہے جب زندگی کی قید سے آزاد ہوتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ انسان تو اسی وقت فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے جب ہم اسے فراموش کرنا شروع کرتے ہیں۔رفیق غوری بھی گزشتہ کئی برس سے ہر لمحہ مر رہا تھا کیونکہ دوست احباب نے اسے بھلا دیا۔ اور جس دن کو ہم اس کا یوم وفات قرار دے رہے ہیں ،وہ تو دراصل یوم نجات ہے۔
یہ کسی ایک انسان کا المیہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویوں کی سب سے بھونڈی مثال ہے۔برے وقت میں سایہ ہی ساتھ نہیں چھوڑتا بلکہ تعلق کا دم بھرنے والے بیشتر افراد راہیں جدا کر لیتے ہیں۔ جب تخت اور بخت منہ موڑتا ہے تو لوگ بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ہمارے کتنے ہی دوست ،عزیز ،رشتہ دار اور مہربان منتظر ہوتے ہیں کہ اس برے وقت میں کوئی تو تنہائی کا ساتھی ہو ،کوئی تو وحشتوں کا رفیق ہوجو مال و منال نہیں ،شہرت و عزت نہیں صرف درد بانٹ لے۔انہیں دولت درکار نہیں ہوتی بس آپ کی توجہ،چاہت اور رفاقت کی طلب ہوتی ہے ۔مگر ہمارے پاس ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے فرصت نہیں ہوتی،تالیف قلب اور دلجوئی کے لئے وقت نہیں نکل پاتا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں شخص کو بیماریوں نے لاچار و بے بس کر دیا ہے لیکن در حقیقت اسے اپنوں کی بے حسی گھن کی طرح چاٹ رہی ہوتی ہے۔فراموش کر دیئے جانے کا احساس مرض الموت کی صورت زندگی کو نگل رہا ہوتا ہے۔جب کوئی مر جاتا ہے تو ہم اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس کا آخری دیدار کرنے پہنچ جاتے ہیں،سب کو بتاتے ہیں کہ وہ کتنا عظیم انسان تھا۔دراصل ضمیر کی ملامت سے بچنے کے لئے یہ باتیں دوسروں کے بجائے ہم خود کو بتا رہے ہوتے ہیں،اپنے آپ کو سمجھا رہے ہوتے ہیں۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے تو کیوں نہ ہم اس بات پر ہی یکسو اور متفق ہو جائیں کہ بعد از مرگ فاتحہ کے لئے آنے ،ٹسوے بہانے اور قبر پر پھول چڑھانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے لئے ان کی زندگی میں ہی کچھ وقت نکال لیں ۔جس طرح آپ اپنے مال و دولت کا کچھ حصہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کرتے ہیں اسی طرح اپنی زندگی میں سے بھی کچھ وقت ان عزیز و اقارب اور دوستوں کے لئے مخصوص کر دینا چاہئے جن کے چہروں پر آپ کی تھوڑی سی توجہ،رفاقت اور پیار کے باعث مسکراہٹ آ سکتی ہے۔

.
تازہ ترین