• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتظار حسین کے فن پر آصف فرخی نے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ’’چراغ شب افسانہ‘‘۔ کتاب میں انتظار حسین کے افسانوں، ناولوں، ڈراموں، یادداشتوں، سفر ناموں، اخباری کالموں اور ترجموں کا بھرپور تنقیدی جا ئزہ لیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت میں اس کتاب پر بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو اس کتاب کے ’’مقدمے‘‘ کے آخری جملے کا سہارا لے کر اپنی بات آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ وہ جملہ یہ ہے ’’اپنے لئے مجھے یہ طے کرنا ہے کہ میرے سامنے دروازہ ہے کہ آئینہ؟‘‘ میں نے یہ پڑھا اور چونک گیا۔ یہ جملہ آصف فرخی نے افسانوں اور ناولوں کی تہہ در تہہ معنویت تک پہنچنے کے حوالے سے لکھا ہے لیکن میں اسے اپنی آج کی صورتحال پر منطبق کرنا چاہتا ہوں۔ یوں تو ہماری تمام سیاسی، تاریخی، سماجی اور عمرانی صورتحا ل ہی ایسی ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہم کسی دروازے کی طرف جا رہے ہیں یا آئینہ کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں لیکن کراچی میں آج جو ہو رہا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعی ہمارے سامنے دروازہ نہیں ہے بلکہ ہم آئینے کے سامنے ٓکھڑے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ہی دیکھ رہے ہیں، اپنے اردگرد ہماری نظر نہیں ہے۔
اب کراچی کی بات ہو رہی ہے تو ہم انتظار حسین کو پھر یاد کئے لیتے ہیں۔ انتظار حسین کا ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ کراچی اور کراچی کی صورت حا ل پر ہی ہے۔ اس ناول کا ایک جملہ ہے ’’ہم تاریخ کے ڈسے ہو ئے ہیں‘‘ اور یہی سچ ہے۔ واقعی ہم تاریخ کے ڈسے ہوئے ہیں۔ انتظار حسین تو مسلمانوں کی تاریخ میں غوطے لگاتے ہوئے اندلس تک چلے جاتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنی پچھلے چالیس پچاس سال کی تاریخ کو ہی دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمیں کس کس نے ڈنک مارا ہے۔ مشرقی پاکستان کیوں ٹوٹا؟ ایم کیو ایم کیوں بنائی گئی؟ اس جماعت کو کس کس کی حمایت حاصل رہی؟ کس کس نے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا؟ اور خود اس جماعت نے کس کس حکومت اور کس کس حکمران کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا؟ ان سوالوں پر ہمیں غور کرنا چا ہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس عرصے میں کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ بھر کے اردو بولنے والوں میں اس نے اپنے لئے ایک جگہ بنا لی ہے۔ کئی بار اسے توڑنے کی کوشش کی گئی، اس کے مقابلے میں حقیقی جیسی جماعتیں بنائی گئیں، لیکن ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ایم کیو ایم اور اس کے قائد کا خوف بھی شامل تھا۔ ان کے عقوبت خانے اور بوری بند لاشیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اگر رینجرز کے آپریشن کے زمانے میں بھی ایم کیو ایم کا امیدوار الیکشن میں کامیاب ہو جائے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ کراچی کارپوریشن کا میئر اور ڈپٹی میئر اور یونین کونسلوں کے عہدیداروں کا انتخاب تو اس وقت ہوا ہے جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن زور شور سے جاری ہے۔ اب رہے الطاف حسین، تو طاقت کا نشہ ان کے دماغ کو چڑھ گیا ہے۔ اور یہ نشہ چڑھانے والے ہمارے حکمران ہی ہیں۔ 22؍اگست کو انہوں نے جو بدزبانی کی وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے رہے ہیں البتہ اس مرتبہ انہوں نے ساری حدود پار کرلیں۔ اور ایسے نعرے لگوائے جو حکومت اور ریاست ہی نہیں بلکہ اس ملک کا کوئی بھی رہنے والا انہیں برداشت نہیں کر سکتا البتہ یہ نعرے پاکستان کو تو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، الٹے ان کی اپنی پارٹی کو ہی لے ڈوبے۔ اب ذرا غور کیجیے، جو شخص یہ بھی نہ سوچے کہ ان نعروں سے اس کی اپنی پارٹی کو ہی نقصان پہنچے گا، اس شخص کی ذہنی حالت کیا ہو گی؟ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ جن لوگوں کی قیادت کا وہ دعویٰ کرتا ہے ان کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں ہے؟ ان کے آگے تو سمندر ہے۔ وہ کہاں جائیں گے؟ مگر، گناہ گار تو الطاف حسین ہے، اس کی پارٹی تو نہیں۔ تو کیا ایک شخص کے گناہوں کی سزا پوری پارٹی کو ملنا چاہئے؟ سوال یہ ہے۔ مان لیا کہ وہ اس جماعت کا سربراہ ہے لیکن اس کے غیر ذمہ دارانہ نعروں نے پاکستان میں رہنے والے اس جماعت کے عہدیداروں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ اپنی غلطی مان رہے ہیں، اور الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی جماعت کے آئین سے وہ شقیں نکال دیں گے جن کے تحت الطاف حسین سے وفاداری کی قسم کھائی جاتی ہے۔ تو کیا ہمیں انہیں یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ اپنی دیانت داری ثابت کریں؟
سوال کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے دفتروں کو کس قانون کے تحت سربمہر کیا گیا ہے؟ کیا حکومت نے اس جماعت پر پابندی لگا دی ہے؟ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ دار اصحاب تو کہہ رہے ہیں کہ اس جماعت پر پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ حزب اختلاف کی رائے بھی یہی ہے۔ تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ آپریشن شروع کیا گیا تھا تمام جماعتوں کے جنگجو عناصر کے خلاف۔ اس میں ایم کیو ایم کے جنگجو بھی شامل تھے۔ تین سال کے عرصے میں اس جماعت کے جتنے بھی کارکن گرفتار کئے گئے ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس جماعت کے جنگجو بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ اول تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان میں کتنے گناہ گار ہیں اور کتنے بے گناہ۔ لیکن چلیے مانے لیتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور وہ اس جماعت کے جنگجو بازو سے تعلق رکھتے ہیں، تو پھر اس جماعت کا سیاسی بازو بھی ہو گا۔ اور یہ بات آپ بھی مانتے ہیں۔ اب اگر اس کا ایک سیاسی بازو بھی ہے تو پھر اسے سیاسی میدان میں کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ ان کے دفتر کیوں بند کئے جا رہے ہیں اور کسی نوٹس کے بغیر ان کی عمارتیں کیوں ڈھائی جا رہی ہیں؟ انہوں نے الطاف حسین سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔ اب وہ الطاف حسین کے آمرانہ چنگل سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ آپ انہیں موقع تو دیجیے اپنی بات ثابت کرنے کا۔ افراسیاب خٹک نے بالکل صحیح کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو طاقت یا تشدد کے بل پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسے سیاسی عمل کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کے مقابلے میں بنائی جانے والی جماعت میں اتنی سیاسی بصیرت اور طاقت ہے کہ وہ کراچی سے ایم کیو ایم کا نام و نشان مٹا سکتی ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن ایک رات یا چند گھنٹے اپنے پاس رکھ کر وفاداریاں تبدیل کرانے سے کسی جماعت کو نہیں توڑا جا سکتا۔ توڑنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے جسم سے الطاف حسین کا کانٹا ہمیشہ کے لئے نکل جائے تو کیا ہمیں اس جماعت کے سیاسی عناصر کو کام کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہمارے لئے آگے جانے کا دروازہ کھولے گا۔


.
تازہ ترین