• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپانی اسلام کے بہت قریب ہیں، سچ بولتے ہیں، پورا تولتے ہیں، دغا اور فریب کی لعنت سے کوسوں دور ہیں، محنت کے د لدادہ، حقوق العباد کے پرچارک، لین دین میں کھرے، انسان دوستی میں پیش پیش، جاپانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر اسلام کا غلبہ ہے۔ وہاں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام قبول کرنے کے قریب ہیں۔ اس حوالے سے جب میں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد رئیس علوی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خوش گمانی اچھی بات ہے مگر جاپان میں ایسی کوئی بات نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے اسلام کا فلسفۂ حیات اور منشور، معاشرت سارے کا سارا اپنا لیا ہے۔ جاپانی لوگ اقبال کے مرد مومن ہیں، شاہین ہیں۔ انہیں دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے پر ندامت ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی کامیابی کا بنیادی اور اساسی اصول ’’سچ‘‘ ہے۔ وہ جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں اور جھوٹے سے بھی۔ وہ سادھو سنت نہیں، جبہ و دستار کے بھی پرستار نہیں، وہ بڑے بڑے خواب بھی نہیں دیکھتے، انہیں بشارتیں بھی نہیں ہوتیں، وہ پیش گوئیاں بھی نہیں کرتے، وہ شیخ بھی نہیں، حکیم اور صوفی بھی نہیں ہیں۔ باوجود اس کے جاپانیوں میں بے پناہ روحانیت پائی جاتی ہے۔ وہ جو کچھ سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں، جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد رئیس علوی جاپانی ادب، ثقافت، رہتل اور بودوباش سے بے پناہ آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوکیو یونیورسٹی میں چار سال تک جاپانیوں کو اردو پڑھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے جاپان میں مسافرت بھی کی اور سیاحت بھی، وہ جاپانی ادب کے سرگرم محقق ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی 7؍مئی 1946ء کو لکھنؤ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اور ایف اے لکھنؤ کے یوپی بورڈ سے کیا۔ 1961ء میں پاکستان کے لئے ہجرت کی۔ بی اے کراچی کے نیشنل کالج سے 1963ء میں اور ایم اے اردو کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں کیا پھر کراچی ہی میں سراج الدولہ کالج میں لیکچرار مقرر ہو گئے۔ وہ ٹوکیو یونیورسٹی جاپان میں اردو کے پروفیسر تعینات رہنے کے بعد جاپان سے واپسی پر سندھ میں تعلیم کے انتظامی امور سے وابستہ ہوئے، حکومت سندھ میں ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم اور کراچی کی شہری حکومت میں محکمۂ تعلیم کے سربراہ رہے، کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی رہے اور قلندر شہباز یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے، آج کل نیو پورٹ آف کمیونی کیشن اینڈ اکنامکس کراچی کے ریکٹر ہیں۔ امریکہ کی پٹس برگ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز برائے تعلیم نے 2001ء میں فیلوشپ کی تکمیل پر علوی صاحب کو علمی حیثیت کے اعتراف میں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ 2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی، اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی یوپی نے اردو زبان کی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر رئیس علوی کو ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ فیض احمد فیض کے بعد یہ دوسرا ایوارڈ تھا جو کسی پاکستانی کو ملا۔
پروفیسر علوی نے 2010ء میں نیوزی لینڈ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے اردو ہندی کلچرل ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈکانہ صرف خاکہ پیش کیا بلکہ ایسو سی ایشن کے قیام کے بعد اس کے سرپرست اعلیٰ بھی مقرر ہوئے۔ 2011-12ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی اور ملبورن میں اردو زبان و ادب کی ترویج اور فروغ کے لئے مختلف سیمینار، مذاکروں اور فورمز پر خطاب بھی کیا۔ پروفیسر رئیس علوی کو ملال ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر اردو پر توجّہ نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے چین، فرانس اور روس کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو ترقی دی، اسے سرکاری اور قومی طور پر اپنایا اور ترقی کر گئے۔ بہت سے دوسرے ممالک جن میں بھارت کی مثال بھی موجود ہے۔ علوی صاحب کا فرمانا ہے کہ جنرل اسمبلی کے گزشتہ ماہ ستمبر میں ہونے والے اجلاس سے اگر نواز شریف اردو میں خطاب کرتے تو بہت ہی اچھا ہوتا جیسے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہندی میں خطاب کیا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی نے ادبی و تعلیمی موضوعات پر بہت سے مضامین اور مقالات لکھے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں ان کا شعری مجموعہ ’’صدا ابھرتی ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپانی ادب و زبان پر 5؍کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا شمار بہترین ترجمہ نگاروں میں بھی ہوتا ہے۔ جاپانی زبان پر انہیں اردو کی طرح عبور حاصل ہے، وہ پاکستان اور جاپان کے دانشور طبقے میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ جاپانیوں کے مزاج اور طرز احساس سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔
ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبۂ اردو کے چیئرمین پروفیسر ہیروشی ہاگیتا نے ڈاکٹر رئیس علوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پروفیسر رئیس علوی کو جاپانیوں سے بے پناہ محبت ہے۔ وہ جاپانی ادب و ثقافت کو اردو کے قالب میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ان کے تراجم جن میں بارہویں صدی کے مشہور جاپانی شاعر سئی گیو کے دیوان کا ترجمہ ’’چاند کے رنگ‘‘ قابل تحسین ہے اور دوسرا کارنامہ مینوشو کا ترجمہ ہے۔ ’’گل صد برگ‘‘ جو جاپان کا قدیم ترین کلیات ہے اور جاپانیوں میں بے حد مقبول بھی ہے اس کا تین جلدوں پر مشتمل ترجمہ پاک جاپان دوستی کی لازوال مثال ہے جس کا سہرا پروفیسر رئیس علوی کے سر ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپان کے عظیم شاعر اور ہائیکو کے سرخیل جناب متسواوبشو کا ’’اوکونوہوسو میچی (OKU NO HOSO MICHI) جو عالمی ادب کا ایک سدابہار سفرنامہ ہے، کا ترجمہ بھی کیا ہے جس کا نام ہے ’’اندرون شمال کا تنگ راستہ‘‘ اس ترجمے کا انتساب جاپان میں اردو کے بہت بڑے اسکالر جناب پروفیسر سوزوکی تاکیشی کے نام ہے۔ سوزوکی تاکیشی کی جاپان میں اردو کی ترویج کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی جو پاکستان کے مقابلے میں جاپان میں زیادہ جانے جاتے ہیں جنہیں جاپان میں پاکستان کا ثقافتی اور لسانی سفیر بھی کہا جاتا ہے۔ وہ نجیب الطرفین ہیں، والدہ کی طرف سے حسنی حسینی سید ہیں اور والد کی طرف سے علوی ہیں۔ آپ کے والد زمیندار بھی تھے اور عالم دین بھی، ان کا نام نامی مولانا محمد یونس علوی تھا۔ آپ اردو، فارسی اور عربی پر عبور رکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے وہ لکھنؤ سے پندرہ روزہ ’’پیام انسانیت‘‘ اور ماہ نامہ ’’عرفان‘‘ بھی نکالتے رہے ہیں۔ 1953ء میں ان کا وصال ہوا اور لکھنؤ ہی ان کا مدفن بنا پھر 1961ء میں پروفیسر رئیس علوی والدہ ماجدہ اور بھائیوں کے ہمراہ کراچی آ گئے۔ علوی صاحب کے اساتذہ میں ممتاز دانشور پروفیسر ابواللیث، پروفیسر مجتبیٰ حسن اور ڈاکٹر کشفی شامل ہیں۔
ڈاکٹر پروفیسر علوی کی والدہ ماجدہ ممتاز صوفی پیر سید شاہ وارث حسن شاہ کی دختر تھیں جن کے ایک خلیفہ ذوکی شاہ تھے جو قائداعظم کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ برعظیم پاک و بھارت میں ہزاروں عقیدت مند ہیں جو سید وارث حسن شاہ سے بیعت ہیں۔ وہ اپنے نام کے ساتھ وارثی لکھتے ہیں۔ ایک دوسرے بڑے صوفی سید شاہ وارث علی شاہ تھے جن کا مزار دیوا شریف ضلع بارہ بنکوا میں ہے جو لکھنؤ سے سترہ میل کے فاصلے پر ہے۔ دونوں وارث علی اور وارث حسن شاہ ہم عصر تھے، دونوں کا سلسلہ وارثی ہے۔ دونوں کے عقیدت مند وارثی ہیں۔ پروفیسر رئیس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ علوی بھی ہیں، وارثی بھی، انسان دوست بھی اور اردو کے محسن بھی۔
تازہ ترین