• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے اگر فوج کا کردار حذف کردیا جائے تو کالم نویسوں، تجزیہ نگاروں کے پاس نہ تو موضوعات باقی رہیں گے اور نہ ہی قلم کی روشنائی استعمال ہوسکے گی جبکہ بعض تو اپنی نگارشات بھی تر تیب نہیں دے پائیں گے۔ راقم کو ایسا اسوقت محسوس ہوا جب عید الاضحی سے ایک روز قبل ایک مضمون بعنوان’’ایم کیوایم بحران کی زدمیں‘‘پڑھنے کا موقع ملا۔ زیر بحث داستان کے راوی کا نام لکھنے کی جسارت اس لئے نہیں کررہا ہوںکیوں کہ تاریخ میںانگنت داستانیں موجود ہیں لیکن ان پر یقین کرنے والا کوئی نہیں اور یہی حال اس داستان کا بھی ہونے جارہا ہے۔ اس لئے معزز صاحبِ چڑیا کالم نگار کے نام پر بھی پردہ پڑا رہے توبہترہے۔داستان کا راوی رقمطراز ہے کہ 1984میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں کا توڑ کرنے کیلئے ایم کیو ایم قائم کی۔ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پاکستان پر 11برس تک حکمرانی کرنے والا جنرل انتہائی نالائق تھا کیوں کہ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں جنم لیا اور پیپلز پارٹی سندھ کے دیہات کی نمائندہ جماعت تھی اور ایم کیو ایم نے دائیں بازو کی جماعتوں جس میں جماعتِ اسلامی، جے یو پی اور دیگر مذہبی جماعتیں شامل تھیں انکی سیاسی دکانیں بندکرائیں۔ یہ تمام جماعتیں وہ ہیں جنھوں نے ضیاء کے مارشل لا کی حمایت کی تھی اور شہری علاقوں کے مینڈیٹ کی حامل تھیں ۔اس لئے اس استدلال کو کس طرح سے تسلیم کیا جائے؟ ایم کیو ایم کیونکر وجود میں آئی اس کے لئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے اگر شہری علاقوں میں محرومیاں نہ ہوتیں تو ایم کیوایم بھی نہ ہوتی۔ اسی ضمن مزید لکھتے ہیں کہ 1990میں جنرل اسلم بیگ اور حمید گل کے ساتھ ساز باز کرکے بینظیر کی حکومت گرانے میں ایم کیو ایم نے اہم کردار ادا کیا۔ حیرت ہے جن لوگوںنے رقم لے کر سازش کی اور اصغر خان کیس میں ثابت بھی ہو گیا وہ تو چڑیا کو نظر نہ آسکے۔ بریگیڈئر امتیاز اور حمیدگل کا واشگاف اقرار جو انھوںنے ایم کیو ایم کے حوالے سے کیا کہ اس جماعت کے قائدنے1990میں رقم لینے سے انکار کردیاتھا پھر بھی معزز تجزیہ نگار ایم کیو ایم پر الزام لگا گئے کہ بے نظیر کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیااور انھیں جنرل ضیا ءکے بیٹے کی وہ پیش گوئی بھی یاد نہ رہی جس میں بینظیر بھٹو کی حکومت گرنے کی تاریخ چند ماہ قبل دے دی گئی تھی اور وہ تاریخ 6اگست 1990کی تھی ۔پھر چڑیامزید کہتی ہے کہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف بھی جب سازش کی کوشش کی گئی تو اس وقت کے کور کمانڈر جنرل آصف نواز جنجوعہ نے سختی کی جس کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ چڑیا اس بیان کے بارے میں رائے دینے سے چوک گئی جو 24ستمبر 1991کو قومی اخبارات کی زینت بنا ’’میں ایک مسلمان ہوں مجھے اپنے پنجابی ہونے پر فخر ہے۔ مسلم لیگ کے 72 دھڑے ہوسکتے ہیں تو ایم کیو ایم کے دو دھڑے کیوں نہیں ہوسکتے؟‘‘یہ بیان اسی کور کمانڈر کا ہے جس نے الطاف حسین پر سختی کی تھی اور جب یہ بری فوج کے سربراہ کے منصب پر آئے تو کراچی کور کے دفتر کے دورے کے موقع پر انہوں نے یہ بیان دیا۔ اس بارے میں چڑیا نے بتایا تھا کہ اس نے الطاف حسین پر سختی کی تھی۔ کیا کسی پیشہ ور سپاہی کو یہ بیان زیب دیتا ہے؟کالم نگار لکھتے ہیں کہ جب بینظیر 1993 میں دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انھوں نے نصیر اللہ بابر کو کراچی بھیجا کہ جائو کراچی کو ایم کیوایم سے پاک کردو اور پھر جو بربر یت کراچی میں ڈھائی گئی اس کی عکاسی اس صدارتی فرمان سے بخوبی ہوتی ہے جو 1996 میںصدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو 58-2bکے تحت برخاست کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ اس چارج شیٹ کا پہلا نکتہ کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتال سے تھا جس کے بارے میں نصیر اللہ بابر فرمایا کرتے تھے کے مرنے والے بے گناہ نہ تھے۔ باالفاظ دیگر ملزمان کو سزا عدالتیں نہیں بلکہ SHOsاور نصیراللہ بابر خود دے رہے تھے ۔اور جب اس صدارتی فرمان کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتال کو درست قرار دیا ۔یہ الگ سوال ہے کہ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرکے عدالت نے سزائیں نہیں دیں۔یہ بھی انصاف فراہم کرنے والے اداروں کیلئے سوال ہے؟۔ اب رہا سوال مشرف کی حمایت کا ،تواگر ایسا ہوتا کہ مشرف کی حمایت کی جاتی تو کراچی کی یہ نمائندہ جماعت 2001میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتی البتہ جب 2002 میںجمہوری پارلیمنٹ بحال ہوئی تو ایم کیو ایم نے ایک منتخب حکومت اور صدر سے سیاسی سمجھوتے کئے جو اس کا حق تھا۔اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ معاملات بھی جمہوری عمل کا حصہ تھے۔اس سے پہلے کہ ہم زیر بحث کالم کے آخری مندرجات کی جانب جائیںاس سے قبل آئیں ذرا ان تفکرات کا جائزہ بھی لیتے ہیں جو صاحبِ چڑیا تجزیہ نگار کو ایم کیو ایم کے ماضی حال اور مستقبل کے حوالے سے ہیں۔ عمران فاروق کے قتل کے بارے میں اکثر حاشیہ نگاری کی جاتی ہے اور اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ ISIنے دو نوجوانوں کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے جنھیں مبینہ طور پر اس قتل کے فوری بعد کراچی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اس سلسلے میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ وقت کا انتظار کیا جائے اور قبل از وقت الزامات سے گریز کیا جائے۔ بالکل اسی طرح منی لانڈرنگ کیس میں الزامات کی بنیاد پر صفحات کالے کرکے کسی کی ساکھ متاثر نہ کی جائے۔ اگر کسی کے پاس ثبوت موجود ہیں تو قانون اور عدالتوں کی مدد کی جائے کیوں کہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ گزشتہ چار سالوں سے ان دو معاملات پر کہانیاں توبہت گھڑی گئی ہیں تاہم کچھ بھی ثابت نہیں کیاجاسکا اور بالخصوص صاحب چڑیا کالم نگاربھی گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے لئے 35پنکچر لگانے کے الزامات کی زد میں ہیں اور ہم ان پر بھی الزامات لگانے والوں کو صلاح دیتے ہیں کہ اگر ثبوت ہیں تو عدالت جائیں بصورتِ دیگر کسی کی کردار کشی کی کوشش نہ کی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے مستقبل پر بھی کچھ پریشانیاںچڑیا کو لاحق ہیں ۔کبھی انہیں کپتان فوج کی مدد سے کراچی میں نظر آتے ہیں تو کبھی کوئی اور اس حوالے سے نظر آتا ہے ۔آپ خاطر جمع رکھیں۔ کراچی کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ PPIسے لیکر PTIتک نہ جانے کتنے مخالفین ایم کیو ایم کے سامنے لائے گئے ۔سب کے سب عوامی سیلاب میں بہہ گئے۔کل تک ANPکونجات دہندہ کہا جارہا تھا لیکن کراچی کے غیور عوام نے اس کا بھی صفایاکردیا۔ MMAکی شکل میںدائیں بازو کی جماعتیں آئیں وہ بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔لہٰذااجلاس دبئی میں ہوں یا اسلام آباد میں لاہور میں ہوں یا کہیں اور ،جب تک عوام کی طاقت کسی کے پاس ہے تو اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔رہا سوال فوج کے سربراہ سے سوالات کا تو اس کا جواز مندرجہ بالا تحریر میں تلاش کیاجاسکتا ہے اور پھر بھی تشفی نہ ہوسکے تو اس کے چند اسباب پیش خدمت ہیں۔1972میں لسانی بل کی منظوری اور اندرون سندھ سے آبادیوں کا انخلا ،ملازمتوں سے تفریق کی بنیاد پر برخاستگی، 14دسمبر 1986کو کراچی کی مضافاتی بستی میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی، 30 ستمبر 1988کو حیدرآباد میں مخصوص بنیادوں پر ہونے والا قتل عام، جون 1992کے بعد پوری آبادیوں کے محاصرے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر عوام کو پریشان کرنا۔27دسمبر 2007کو پورے سندھ میں لسانی بنیادوں پر کی جانے والی لوٹ مار اور خونریزی۔ لیاری میں زبان کی تفریق کی بنیاد پر عام عوام کی گردنیں کاٹنا، یہ صرف وہ معاملات ہیں جن کا تعلق عام عوام سے ہے اور جو کچھ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ کیا گیا اس کی تفصیلات الگ ہیں ۔یہ واقعات ہی فوج کے سربراہ اور دیگر اقتدار اعلیٰ کے سربراہوں سے سوالات کرنے کیلئے کافی ہیںاگر نواز شریف اپنے متنازعہ اقتدار کو بچانے کیلئے فوج سے سہولت کار بننے کی درخواست کرسکتے ہیں تو کیا عوام پر ہونے اجتماعی ظلم رکوانے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا؟
تازہ ترین