• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج متحدہ کو جن حالات کا سامنا ہے24 سال پہلے بھی وہی حالات تھے

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو ایک عرصے بعد میئر مل گیا ہے ،پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ میئر نے جیل سے آکر حلف اٹھایا اور پھر واپس جیل چلا گیا، میئر وسیم اختر اور ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کیلئے کراچی کی بہتری کیلئے کام کرنا مشکل ہوگا، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی حکومت سے تمام اختیارات واپس لے چکی ہے، میئر اور ڈپٹی میئر محدود اختیارات کے ساتھ کراچی کی خدمت کیسے کریں گے جبکہ ایم کیو ایم بہت بڑے اندرونی بحران کا بھی شکار ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد اورایم کیو ایم کے 90ء کے ماضی کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کی گئیں جس کی وجہ سے ہم تحقیق کرنے پر مجبور ہوئے، کل مصطفٰی کمال نے ہمارے پروگرا م میں کہا تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ الطاف حسین خود کو اس طرح پارٹی سے علیحدہ کرلیں، آج ایم کیو ایم کو جن حالات کا سامنا ہے چوبیس سال پہلے بھی وہی حالات تھے، جو کچھ چوبیس سال پہلے ہوا بہت حد تک اب بھی وہی ہورہا ہے، الطاف حسین نے چوبیس سال پہلے جو کہا اب بھی بہت حد تک وہی کہہ رہے ہیں، الطاف حسین چالیس سال کی عمر میں جو بیماری کی باتیں کررہے تھے آج 64سال کی عمر میں بھی وہی بات کررہے ہیں، تاریخ خود کو دہرارہی ہے۔ چوبیس سال پہلے کے اخبارات کی سرخیاں بتاتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ 14دسمبر 1992ء میں خبر چھپی ”الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے علیحدہ ہونے کا الٹی میٹم“ قومی روزنامہ میں چھپا ”الطاف حسین ایم کیوا یم چھوڑنے پر رضامند ہوگئے“ 16 دسمبر 1992ء کو  خبر چھپی ”الطاف حسین سیاست سے بھی گئے“ اسی دن  جنگ میں سرخی تھی ”الطاف حسین نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا“ جبکہ روزنامہ  میں خبر تھی ”نئے قائد عظیم طارق ہوں گے، باقاعدہ اعلان جلد ہوگا، اشتیاق اظہر“ اسی روز روزنامہ دی نیوز نے خبر دی ”الطاف حسین نے عظیم طارق اور سینٹرل کمیٹی کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا“ 3اپریل 1993ء کو روزنامہ جنگ میں خبر چھپی ”ایم کیو ایم حقیقی اور عظیم طارق کا اتحاد جلد متوقع ہے“ یکم مئی 1993ء کو روزنامہ جنگ میں خبر آئی ”عظیم احمد طارق کو قتل کردیا گیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اس دوران عظیم احمد طارق کا بیان بھی چھپا کہ ”ایم کیو ایم الطاف حسین کی ذات نہیں ہے، پارٹی ایک سال سے ان کے بغیر چل رہی ہے آئندہ بھی چلتی رہے گی“ ساتھ ہی اشتیاق اظہر کا بیان بھی چھپا ”الطاف حسین نے غیرسیاسی قوتوں کے دباؤ پر استعفیٰ دیا، انہیں کہا گیا جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے ایم کیو ایم کے سات ہزار کارکنوں کو رہا نہیں کیا جائے گا“ ۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اس وقت بھی الطاف حسین خرابی صحت کی وجہ سے قیادت سے دستبردار ہوگئے تھے اور اختیا را ت عظیم طارق اور مرکزی کمیٹی کو سونپ دیئے تھے ، الطاف حسین نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ عظیم احمد طارق پر اعتماد کا اظہار بھی کیا، اس وقت بھی معافی، اس وقت بھی ایک رہنما پر اعتماد کا اظہار، اس وقت بھی بیماری، اس وقت بھی اسی طرح کی پریس ریلیز آئی۔ 1992ء میں بھی آپریشن کلین اپ کے آغاز سے ہی واضح تھا کہ حکام ایم کیوا یم کو ایک ہی صورت میں کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور وہ ہے ”مائنس الطاف“۔ یہ بات جانی پہچانی لگتی ہے کیونکہ چوبیس سال بعد پھر وہی ہورہا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ الطاف حسین کے بیان سے کچھ دیر پہلے عظیم احمد طارق نے بھی پریس کانفرنس میں اس طرح کی کچھ بات کی تھی، مبصرین کا خیال تھا کہ دونوں بیانات ایک دوسرے کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھے گئے ہیں اور اسکرپٹڈ ہیں، اس وقت بھی یہ بات ہوتی رہی کہ سب ملی بھگت اور ڈرامہ ہے، عظیم احمد طارق جو کررہے ہیں وہ الطاف حسین کی مرضی سے کرر ہے ہیں، الطاف حسین بھی یہ تاثر دیتے رہے کہ جو ہورہا ہے ان کی مرضی سے ہورہا ہے، اس وقت بھی لندن میں خاموشی چھائی رہی، اخبار لکھتا ہے کہ اس بیان کے بعد میڈیا نے لندن میں الطاف حسین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ذرائع سے بات سامنے آئی کہ الطاف حسین کی طبیعت صحیح نہیں اور ان سے رابطہ ممکن نہیں، آج بھی میڈیا لندن میں رابطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے مگر موقف سامنے نہیں آرہا، آج بھی میڈیا دیکھ رہا ہے کہ واسع جلیل ، مصطفٰی عزیز آبادی اور ندیم نصرت کوئی ٹوئٹ کریں لیکن کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے،وہی آپریشن سے بچنے کیلئے قیادت سے دستبرداری، وہی معافی، وجہ خرابی صحت کا جواز، وہی اسکرپٹڈ بیانات، وہی لندن کی خاموشی ، چوبیس سال بعد اب بھی وہی ہورہا ہے۔شاہزیب خا نز ا د ہ نے کہا کہ عظیم طارق نے ایم کیو ایم کی سربراہی سنبھالی، انہوں نے نائن زیرو کے بجائے گلشن اقبال میں ایم کیو ایم کا مرکز بنایا مگر تین ماہ بعد ہی الطاف حسین نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے رابطہ کمیٹی بنادی جس کا کنوینر اشتیاق اظہر کوبنایا گیا جنہوں نے نائن زیرو کو ایک بار پھر کھول دیا، پھر ایک اور خبر سامنے آئی کہ عظیم احمد طارق گروپ اور ایم کیو ایم حقیقی کا اتحاد جلد متوقع ہے، اتحاد کی خبریں آنے کے بعد اچانک ایک بڑی خبر آئی کہ یکم مئی 1993ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عظیم احمد طارق کو ان کے گھر میں گھس کر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا، پھر ایم کیو ایم الطاف حسین کی قیادت میں سرگرم رہی اور اب چوبیس سال بعد ایک بار پھر متحدہ کی قیادت میں تبدیلی ہوتی نظر آرہی ہے، ایک دفعہ پھر معاملات بدلے ہیں لیکن اس دفعہ معاملات میں کچھ الگ ہے، میڈیا متحرک ہے، بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے میئر نے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، منگل کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک ریفرنس لندن بھیجا گیا ہے، ایک وقت تھا جب کارروائی لندن میں ہوتی اور ہڑتال پاکستان میں ہوتی تھی لیکن اب حالات بالکل بدلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، حکومت لندن میں متحدہ کے بانی کے خلاف ریفرنس بھیج چکی ہے لیکن پاکستان میں خاموشی ہے بلکہ متحدہ کی طرف سے ریفرنس کی مخالفت تک نہیں کی جارہی ہے۔ پروگرام میں ماہر قانون بیرسٹر راشد اسلم ،ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرا،پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق اور سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت نے بھی اظہار خیال کیا۔لندن سے ماہر قانون بیرسٹر راشد اسلم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی قوانین کے تحت اگر کوئی شخص  برطانوی زمین استعمال کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی کو تشدد پر اکساتا ہے تو اس کی سزا سات سال قید ہے، الطاف حسین کیخلاف ریفرنس پر سزا کا دارومدار حکومت پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے شواہد پر ہے، 2013ء میں تین تلوار کی تقریر میں الطاف حسین کیخلاف خاص شواہد نہیں تھے جس کی وجہ پولیس نے چارجز ڈراپ کردیئے تھے، آپ کے پروگرام میں رینجرز کے بارے میں کی گئی گفتگو کی انکوائری برطانیہ میں جاری ہے، اب بائیس اگست کو الطاف حسین کی تیسری تقریر آگئی ہے جس کے نتیجے میں تشدد ہوا، یہ بہت اہم واقعہ ہے جس کے نتیجے میں برطانیہ میں الطاف حسین کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے، پاکستان ، برطانیہ سے الطاف حسین کی حوالگی کا مطا لبہ بھی کرسکتا ہے، برطانوی عدالت اگر ثبوتو ں سے مطمئن ہوجاتی ہے تو الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت نے کہا کہ پاکستان ون ڈے ٹیم کی سلیکشن کا معیار اچھا نہیں ہے، عمر گل کو کس بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا، ناٹنگھم میں ہمارے فاسٹ باؤلرز کی گیندیں سوئنگ ہی نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے انہوں نے زیادہ رنز دیئے۔ ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرا نے کہا کہ کراچی کے تمام مسائل پر ہماری گہری نظر ہے، کراچی کے مسائل پر ہم نے جامع رپورٹ مرتب کی ہے جس کی پریزنٹیشن مجھے اور وسیم اختر کو دینا تھی لیکن بدقسمتی سے ہم نہیں دے پائے، ایم کیو ایم اس وقت دباؤ میں ہے لیکن صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا گیا ہے، متحدہ قومی موومنٹ مکمل طور پر متحد ہے، بلدیاتی اختیارات لینے کیلئے پہلے قانونی راستہ اختیار کریں گے، آرٹیکل 140/A بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، پیپلز پارٹی نے آٹھ برسوں میں پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے کہ کراچی کو نظرانداز کیا گیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ کو پہلی مرتبہ کراچی کے مسائل نظر آئے ہیں، کراچی کے مسائل کے حل کیلئے سندھ حکومت کے پاس مقامی حکومت کی صورت میں موثر قوت موجود ہے، متحدہ قومی موومنٹ پہلی دفعہ بلدیاتی حکومت میں نہیں آئی، ایم کیو ایم نے ہمیشہ بلاتفریق کراچی کے لوگوں کی خدمت کی اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ وزیراعظم کیخلاف آئینی درخواست کی تیاری کے دوران سینئر وکلاء نے درخواست مسترد ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا تھا، سپریم کورٹ کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی تیاری کررہے ہیں، چند دنوں میں سپریم کورٹ میں دوبارہ اپیل دائر کریں گے۔ نعیم الحق نے کہا کہ ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں کہ نواز شریف احتجاج کے نتیجے میں مستعفی ہوجائیں گے اسی لئے ہم قانونی راستہ بھی اختیار کررہے ہیں، جلسے جلوسوں کا بنیاد ی مقصد عوام کو باور کروانا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنا پوری قوم کا اجتماعی فرض ہے۔ نعیم الحق نے کہا کہ ہم عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے میں حق بجانب ہیں، نواز شریف کی تقاریر میں ان کے مالی معا ملا ت کے حوالے سے بے شمار تضادات ہیں، ستمبر اکتوبر میں وزیراعظم کے حوالے سے حتمی فیصلہ آجائے گا۔  
تازہ ترین