• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میر اخیال تھا کہ میں اپنی زندگی میں دو کام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ پائوں گا۔ ایک تو تحریک ِ طالبان پاکستان کو فاٹا کی محفوظ پناہ گاہوں سے مار بھگانا ، اور دوسرا ایم کیو ایم پر ہاتھ ڈالنا۔ یہ دونوں دھڑے اس جوہری طاقت رکھنے والی ریاست کے تمام وسائل سے زیادہ طاقت ور دکھائی دیتے تھے ۔ تاہم ان دنوں کے پائوں تلے زمین سرکا دی گئی، ان کی محفوظ سلطنت الٹ گئی، پاکستان بچ گیا، ورنہ اس کا ان خون آشام عفریتوں سے بچنا مشکل دکھائی دیتا تھا۔
پاکستان اپنے بنیادی اجزا کے اعتبار سے مضبوط ہے، اس نے خواہ مخواہ ان مسائل کو پرپرزے نکالنے اور اپنی جان کے درپے ہونے کی اجازت دی۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے جیسے اس کی آگاہی کا سفر شروع ہوچکا ، چلیں تاخیر سے ہی سہی، شروع تو ہوا۔ امید کی جانی چاہئے کہ اب اسلام کا یہ قلعہ ان حماقتوں سے اجتناب کرے گا جن کی پرورش اس نے اپنے ذمے لی ہوئی تھی ، اور دنیا میں ایک نارمل قوم کی طرح رہنا سیکھے گا۔ جیسا کہ میں نے کہا، میرا خیال تھا کہ میں اپنے جیتے جی اسے ان مسائل کی دلدل سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھ پائوں گا، لیکن الحمدﷲ، اب ہم درست راہ پرچل نکلے ہیں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ جمہوریت نے خارزاروں کا سامنا کرتے ہوئے گلوں میں رنگ بھردئیے ہیں، یا باد سموم کا رخ بدل کر باد نوبہار کو تحریک بخشی ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا، یہ معجزہ فوج کے ہاتھوں سرانجام پایا ہے۔ فوج نے ہی فیصلہ کن عامل بن کر وہ کچھ کردکھایا جو اسے بہت پہلے شروع کرلینا چاہئے تھا۔ خداکرے جمہوریت ہمیشہ سرسبز وشاداب رہے ، یہ ہمارے دکھوں کا مداوا کرسکے، لیکن فاٹا اور کراچی نے پاکستانی جمہوریت کی کم مائیگی کو آشکار کردیا تھا ۔ فوج کی پیش رفت ، بلکہ موجودہ آرمی چیف کی موثر حمایت کے بغیرپاکستانی جمہوریت کھوکھلی نعرے بازی کرتی رہتی یا سایوں سے الجھنے کو فعالیت قرار دے کر وقت گزار دیتی۔ اس فن میں ہماری جمہوریت یکتائے روزگار ۔ ہاں، اگر مشکل فیصلے کرنے ہوں تو پھر ریت میں سر دینے کے فن میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔
ٹی ٹی پی اور ایم کیو ایم سے اسی زبان میں بات کی گئی ہے جو وہ سمجھتے تھے۔ ان دونوں کو راضی کرنے کی کوششیں کی گئیں، اور ہم اس کا نتیجہ جانتے ہیں۔ حالات میں اُس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی جب فوج نے آہنی مکا استعمال کیا۔ تشددکے سوداگر اور دہشت کے بیوپاری کسی اور جنس کو خاطر میں نہیں لاتے، اور نہ ہی یہ باتوں سے مانتے ہیں۔ یونانی مصنف، ہوریس ہمیں یاد دلاتا ہے ’’عقل سے عاری وحشیانہ قوت خود اپنی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے ‘‘۔ چنانچہ طاقت کو عقل سے مشاورت کرنے کی ضرورت رہتی ہے ۔ اور ہم یہاں یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وسیم اخترکراچی کے میئر ہیں، اورفاروق ستار کو ایم کیو ایم کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ اب وہ اسے سنبھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ معاملہ ہے ۔
فی الحال ان دونوں مسائل سے نمٹ لیا گیا ہے۔ فاٹا اور کراچی میں ہونے والی پیش رفت کو نقصان پہنچنے سے بچانے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جنرل راحیل شریف کے جانشین کون ہوتے ہیں؟جنرل شریف ایک بہترین کمانڈر ثابت ہوئے ، اور ان کی جگہ لینا کسی بھی افسر کے لئے آسان نہ ہوگا۔ اس ضمن میں سیاست دانوں کو احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ آرمی چیف کا انتخاب کرتے ہوئے اگر میرٹ کی بجائے سیاست کو دیکھا گیا تو کراچی اور فاٹا میں شروع ہونے والا بہتری کا عمل بگڑ جائے گا ۔ شریف برادران فیصلہ کرنے میں اپنا سیاسی مفاد دیکھنا چاہیں گے لیکن اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ سیاست دانوں کو وہی کام کرنا چاہئے جس میں وہ ماہر ہیں، جیسا کہ کمیشن مافیاز کو فروغ دینا۔ کئی گنازیادہ لاگت سے تکمیل کی طرف بڑھنے والے میگا پروجیکٹس کچھ افراد کو بے حد امیر، اور جو پہلے ہی امیر ہیں، اُنہیں انتہائی رئیس بنا دیںگے۔ ہمارے ہاں اسی کو’’ترقی ‘‘ کہتے ہیں۔ ملک کو توانائی کی ضرورت ہے ، چنانچہ اس کے لئے نہ صرف زیادہ بلکہ توانائی کے سستے ذرائع بھی درکار ہیں تاکہ ہمارا صنعتی پہیہ چل سکے اور ہماری برآمدات عالمی منڈی میں مقابلہ کرسکیں۔ تاہم جس طریقے سے کوئلے، گیس اور دیگر ذرائع پر کمیشن مافیاز کا تسلط ہے ، ہم انتہائی مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں۔
افسوس، اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ ہماری سرزمین میں کمیشن کلچر کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں پی پی پی کی مسابقت کے لئے تیار کئے گئے سیاست دانوں کے لئے بدعنوانی، کمیشن اور دیگر ذائع سے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنا ہی زندگی کا نصب العین ٹھہرا ۔ یہ معاملہ اتنا راسخ کہ عوام بھی بڑی حد تک یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ حکومت کرنے والے یا اپنی باری کا انتظار کرنے والے یہ سیاست دان اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق بدعنوانی کے ذریعے دولت ہی اکھٹی کرنے آتے ہیں۔ جو ذراکم خوش قسمت ہیں، وہ ابھی ہاتھ پائوں مار رہے ہوں گے، جن پر قسمت کی دیوی مہربان ہوچکی ہے ، وہ مے فیئر، دبئی ، نیویارک، بلکہ اس سے بھی آگے تک اثاثوں کا پھیلائو رکھتے ہوںگے ۔ لیکن ہمیں شکوہ شکایت کرنا موقوف کردینا چاہئے ۔ ہمارا قومی سیاسی منظر نامہ یہی ہے۔ جناح کا پاکستان علمی طور پر کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن عملی طور پر یہی پاکستان ہے جو ہمارے سامنے ہے ۔
ان حقائق کے باوجود ہم خوش قسمت ہیں۔ اس وقت دنیائے اسلام افراتفری کا شکار ہے۔ آپ شام، عراق اور یمن میں پھیلے فساد کی طرف دیکھیں، لیبیا بطور فعال ریاست اپنا وجود کھو چکا ہے ۔ ترکی اچھی کارکردگی دکھارہا تھا لیکن سلطان اردوان (مشہور صحافی رابرٹ فسک نے طیب اردوان کو یہ لقب دیا ہے )نے عالم ِ فانی کے ہر معاملے میں ٹانگ اُڑانی خود پر فرض کرلی ہے۔ ایک طرف مصر اور شام میں مداخلت تو دوسری طرف روس سے چھیڑ خانی۔ لیکن اب ترکی بھی اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ سلطان اردوان شام کے بارے میں معقول پالیسی اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اہم عرب ملک ایران کی ترقی کو اپنے لئے ڈرائونا خواب سمجھتا ہے ۔ جب ایران عالمی تنہائی کا شکار تھا، اس پر مالی دبائو تھا، پابندیاں تھیں تو پھر وہ برادرعرب ملک خوش تھا، لیکن اب اس کے اعصاب چٹخ رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ عرب بھائیوں کو بتایا جائے(اگرچہ وہ ہماری بات سننے کے روادار نہیں)کہ اُن کا خوف بڑی حد تک بے بنیاد ہے۔ بہرحال ، جیسا کہ وہ ہم سے نصیحت سننا پسند نہیں کرتے، اُنہیں اُن کے خود ساختہ مسائل کی دلدل میں اترنے دیا جائے ، ہم اُن کے قدیم قبائلی جھگڑوں میں نہیں الجھ سکتے۔ اُنہیں شام میں آگ لگاکر اپنے ہاتھ جلانے ، یا یمن میں دلدل تخلیق کرکے اس میں پائوں دھرنے کا مشورہ کسی نے نہیں دیا تھا۔ اس کے علاوہ تیل کی فروخت سے کم ہوتی ہوئی آمدنی بھی اُنکے مسائل بڑھا رہی ہے۔
چنانچہ اپنے تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان ان ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ دوسال پہلے تک، جبکہ فاٹا میں آپریشن شروع نہیں ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان بھی عراق یا شام بننے والا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ٹھیک وقت پر جاگ اٹھے، لیکن ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں، اس بیدار ی میں سیاست دانوں یا جمہوریت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ لیکن پھر ہمیں نگلنے کے لئے آگے بڑھنے والی موت کی سیاہ لہر کا رخ موڑ دیا گیا۔ ابھی مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہوئے ، لیکن دہشت گردی کے خونخوار عفریت کا پنجہ توڑ دیا گیا۔ اس دوران ملک کی رونقیں لوٹ آئی ہیں، شادی ہال آباد ہوگئے ۔ اگر دہشت گردی کا راستہ نہ روکا جاتا تو شادی ہالوں کا بزنس ماند پڑجاتا ۔ چنانچہ ہماری خوشیوں کی جانچ کا یہی ایک آلہ ہے۔ ہمارے ریاستی ڈھانچے میں صحت مند ارتقا کا عمل پروان چڑھ رہا ہے۔
اس کے کچھ خدوخال واضح ہیں، جیسا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت، اور کچھ نظروں سے اوجھل ہیں، جیسا کہ فوج کا فیصلہ کن کردار۔ یہ دوطرفہ نظام ِحکومت خوش آئند ہے ۔ فوج کا براہ ِراست حکومت سنبھالنا(دھرنوں کے دوران اس کا موقع پیدا ہوگیا تھا) تباہ کن ہوتا، لیکن اگر سیاست دانوں کو من مانی کرنے دی جاتی تو یہ دہشت گردی کے خلاف موم کی ناک ثابت ہوتے ۔ ان کی بہترین فعالیت کمیشن لینے یا سمندر پار اثاثے بنانے میں تو یگانہ ٔ روزگار لیکن دہشت گردوں کو للکارنا ان کے بس کی بات نہیں۔ دہشت گردوں کو رام کرنے کی کوشش میں ملک کا ناقابل ِ تلافی نقصان کرڈالتے ۔
اب ہمارے پاس ایک توازن موجود ہے جس نے پاکستان کو ان نامساعد وقتوں میں سنبھال رکھا ہے۔ جمہوری نظام اپنی جگہ پر موجود جبکہ جنرلوں نے سیاست دانوں کو ایک حد میں رکھا ہوا ہے۔ اس دوران خود دفاعی ادارے بھی ایک حدکی پابندی کررہے ہیں۔ یہ حسن ِ انتظام ملک کے لئے بہتر ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر امریکی افغانستان کے مسائل حل نہ کرسکے تو فکر نہ کریں، یہ ہم سے بھی حل نہیں ہوںگے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہاں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ چنانچہ ہمیں وہاں پسندیدہ اثاثوں کی تلاش اور حفاظت کی حماقت سے گریز کرنا ہوگا۔ اس کھیل میں ہم صرف نقصان اٹھائیںگے ۔ ہمارے سامنے پریشان کن معاملات معیشت، برآمدات میں جمود، زر ِ مبادلہ کی آمد میں کمی اور غیرضروری طور پر قرضوں میں اضافہ ہے۔ فوج کا شکریہ کہ سیکورٹی کی صورت ِحال استحکام پذیر ہے، لیکن سیاست دانوں کو کیا کہا جائے، معاشی محاذ سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔

.
تازہ ترین