• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرض کریں ایک شاپنگ پلازہ ہے جو شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے، اس پلازے میں شہر کے تمام ارب پتی حصہ دار ہیں، اس سے ذرا پرے دو تین پرانی دکانیں ہیں جو اپنی لوکیشن کی وجہ سے بہت قیمتی ہیں اور پلازے کے مالکان ان دکانوں کو بھی خریدنا چاہتے ہیں مگر دکانوں کا مالک بیچنے پر آمادہ نہیں، غریب آدمی کو پوری طرح احساس ہے کہ طاقتور لوگوں سے لڑنا اس کے بس کی بات نہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑنا چاہتا، ایک دن اِن امرا میں سے ایک غنڈے ٹائپ شخص کا پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اُس غریب کی دکانوں پر قبضہ کر کے اسے بے دخل کر دیتا ہے، غریب بیچارہ روتا پیٹتا رہ جاتا ہے مگر اس کی کوئی نہیں سنتا، تھانے میں رپٹ تو درج ہو جاتی ہے مگر آگے ٹھوس کارروائی نہیں ہوتی۔ پھر وہ غریب احتجاج کا ایک طریقہ نکالتا ہے، وہ شہر کے باقی لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا شروع کر دیتا ہے کہ ان رئیسوں کے شاپنگ پلازے اور قبضہ کی گئی دکانوں سے خریداری نہ کی جائے اور ان کا ہر قسم کا بائیکاٹ کیا جائے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں جو قبضہ مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں، شہر کے کچھ لوگ اس کی بات سے قائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں مگر رئیسوں کو یہ بات بھی پسند نہیں آتی اور وہ شہر میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بائیکاٹ کی حمایت کرے گا جواب میں اس کا حقہ پانی بھی بند کر دیا جائے گا، یہ دھمکی کسی حد تک کارگر ثابت ہوتی ہے اور لوگ اس غریب کی حمایت سے دستبردار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس فرضی کہانی کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں۔
ایک صاحب ہیں، نام ہے اینڈریو کیومو، گزشتہ پانچ برس سے نیویارک کے میئر ہیں، سیاست ان کی گھٹی میں ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف کے والد صاحب بھی 1983سے 1995تک تین مرتبہ اسی شہر کے میئر رہ چکے ہیں۔۔۔۔جی قبلہ، کیا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔۔نہیں جی، وہاں کسی نے ان کو موروثی سیاست کا طعنہ نہیں دیا ۔۔۔۔۔بہرکیف یہ ہمارا موضوع بھی نہیں، اینڈریو کیومو کی طرف واپس آتے ہیں، موصوف البنی لا کالج کے گریجویٹ ہیں، نیویارک میں بطور اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی کام کر چکے ہیں، الیکشن کے دوران انہیں 63%ووٹ ملے جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور لبرل اتنے ہیں کہ نیویارک میں ہم جنس پرستوں کی شادی کا قانون بھی جناب کے دور میں پاس ہوا ہے۔ لیکن اِن کا یہ لبرل ازم گزشتہ دنوں اُس وقت گھاس چرنے چلا گیا جب انہوں نے ایک عجیب و غریب انتظامی حکم نامہ جاری کیا، اس حکم نامے کی رُو سے نیویارک کے تمام اداروں اور ایجنسیوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اُن تمام کمپنیوں اور تنظیموں سے کاروبار ختم کر دیں جو اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت کرتی ہیں۔ میئر صاحب کے شاہی حکم نامے کے مطابق ان کا کمشنر ایسے تمام اداروں اور کمپنیوں کی فہرست مرتب کرے گا جو براہ راست یا بلاواسطہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت کرتی ہیں، اس کے بعد یہ فہرست شائع کی جائے گی اور پھر یہ ان کمپنیوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ 90دن کے اندر یہ ثابت کریں کہ وہ بائیکاٹ کی حمایتی نہیں! سبحان اللہ، کیا کہنے لبرل ازم کے ٹھیکیداروں اور آزادیٔ اظہار کے علمبرداروں کے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دو مہینے پہلے انہی میئر نے اپنے عہدیداروں کو ریاست شمالی کیرولینا کے سفر کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ ان کے تئیں شمالی کیرولینا میں ہم transgendersکے خلاف امتیازی قانون ہے، گویا موصوف نے اپنے ہی ملک کی ریاست کا بائیکاٹ کرنا اُس وقت درست سمجھا جب اُن کے نظریات سے اختلاف کیا جائے! گزشتہ برس اسی نیویارک شہر کی ہیلری کلنٹن نے اسرائیل کی بائیکاٹ مہم کے خلاف اپنے یہودی ارب پتی ڈونرز کو ایک خط لکھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ اسرائیل بائیکاٹ مہم کی بھرپور مخالف ہیں ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہوں، ورنہ الیکشن مہم کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے!
دنیا میں احتجاج کے دو طریقے ہیں، ایک پُرامن اور دوسرا تشدد کے ذریعے۔ کسی بھی ملک کی مصنوعات یا خدمات کا بائیکاٹ کرنا غالباً احتجاج کا سب سے پُرامن طریقہ ہے، اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ جناب میں آپ کو کچھ نہیں کہتا، بس میں آپ کی کوئی چیز نہیں خریدوں گا، کچھ استعمال نہیں کروں گا، کیونکہ آپ ظالم ہیں، غاصب ہیں، جب تک آپ کی یہ پالیسیاں جاری رہیں گے میرا بائیکاٹ بھی جاری رہے گا، جنوبی افریقہ کی نسل پرست پالیسیوں کے خلاف بھی دنیا نے ایسا ہی بائیکاٹ کیا تھا۔ اسرائیل کے خلاف جاری بائیکاٹ کی مہم کوBoycott, Divestment and Sanctions Movementیا عرف عام میں BDSکہتے ہیں، اس مہم کا مقصد اسرائیل پر سیاسی اور اقتصادی دباؤ ڈال کر اسے فلسطینی علاقوں کا قبضہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ ایک منٹ کے لئے فرض کریں کہ فلسطینی موثر مگر پُرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ اسرائیل ان کے ساتھ کیا ظلم کر رہا ہے تو بائیکاٹ کے سوا اُن کے پاس کیا آپشن ہوگا؟ فلسطینیوں کی مجبوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس چھوٹے سے علاقے میں جسے نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کہا جاتا ہے اسرائیل کی مرضی کے بغیر کوئی چیز اندر باہر نہیں جا سکتی، اسرائیل کا کنٹرول اس علاقے پر ایسا ہی ہے جیسے بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر لیکن آزادیٔ اظہار جیسی تراکیب کے موجدوں کو یہ پُرامن احتجاج بھی گوارا نہیں۔ ذرا تصور کریں کہ کل کو نیویارک کا میئر ان لوگوں کے خلاف بھی ایسا ہی حکم نامہ جاری کردے جو محض اس کے سیاسی نظریات سے اختلاف کرتے ہیں تو کیا ردعمل ہوگا؟ یہ حکم نامہ بھی ایسا ہی تعصب سے لبریز ہے۔ اور بات صرف نیویارک تک محدود نہیں، کینیڈا کے جواں سال وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی اس بائیکاٹ کے خلاف قانون سازی کی حمایت کر چکے ہیں، برطانیہ کا بھی یہی موقف ہے، سو جناب یہ حال ہے اُن آزاد خیال معاشروں کو جو دن رات ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ آزادیٔ اظہار پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ امریکہ نے ایران اور عراق پر کیسی پابندیاں لگائی تھیں، کیا وہ بائیکاٹ نہیں تھا؟ عراق میں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں پانچ لاکھ بچے ادویات کی کمی سے مر گئے تھے مگر اس کی کوئی حیثیت نہیں البتہ اسرائیل کے خلاف اگر بائیکاٹ جیسا پُرامن احتجاج بھی کیا جائے تو لبرل ازم اور آزادیٔ اظہار جائے بھاڑ میں، بائیکاٹ نہیں ہونے دیں گے۔ غریب دکانداروں کی پراپرٹی پر قبضہ بھی کریں گے، انہیں بے دخل بھی کریں گے اور اگر وہ بائیکاٹ جیسا پُرامن احتجاج بھی کرنا چاہیں گے تو انہیں اِس کی اجازت بھی نہیں ہوگی، یہ ہے رئیس شہر کی روشن خیالی اور آزادیٔ اظہار کا مطلب!
کالم کی دُم:فرانس کے بعض ساحلوں پر ’’برقینی‘‘ پہن کر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے، موقف یہ اپنایا گیا ہے کہ برقینی عورت کو اپنا جسم دکھانے کی آزادی پر قدغن لگاتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی اس سے زیادہ مضحکہ خیز دلیل ایجاد ہوئی ہو، فرانس جیسا ملک جو سیکولرازم کا مائی باپ سمجھا جاتا ہے اب یہ طے کرے گا کہ کس عورت کو کون سا اور کتنا لباس پہننا چاہئے! لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان خواتین کو ایسے ساحلوں پر جانے سے اجتناب کرنا چاہیے جہاں غیر مرد اور عورتیں تقریباً بے لباس گھومتے ہیں (اس جملے کے حقوق ایک نوجوان غلام حسین یاسر کے نام محفوظ ہیں)، برقینی پہننے سے اِن نامحرم بے لباس مردوں سے پردہ نہیں ہوتا۔ بقول غالب ’’جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں!‘‘

.
تازہ ترین