• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانس کی عدالت عالیہ نے 30 شہروں کے میئرز کی جانب سے فرانس کے ساحل سمندر پر اسلامی طرز کی برقینی(سوئمنگ سوٹ) پہننے پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ کچھ عرصے قبل ان شہروں کے میئرز نے ساحل سمندر پر برقینی پہننے پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی تھی کہ ’’برقینی فرانس کی روشن خیالی کے اخلاقی ضابطوں اور سیکولرازم قوانین کے خلاف ہے۔‘‘ پابندی کے خلاف گزشتہ دنوں انسانی حقوق کی تنظیموں اور اینٹی اسلاموفوبیا ایسوسی ایشن نے احتجاج کرتے ہوئے میئرز کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جس پر عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا مگر پابندی کا فیصلہ کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود فرانس کے کچھ شہروں کے میئرز برقینی پر پابندی کے متنازع فیصلے پر اب بھی قائم ہیں۔
برقینی، برقع اور بکنی کے الفاظ کے امتزاج سے بنایا گیا لفظ ہے۔ اسلامی طرز پر بنایا گیا تیراکی کا یہ لباس خواتین کے سر اور جسم کو ڈھانپے رکھتا ہے جبکہ چہرہ نمایاں ہوتا ہے۔ برقینی پر تنازع اُس وقت کھڑا ہوا جب فرانس کے 30ساحلی شہروں کے میئرز کی جانب سے ساحل سمندر پر برقینی پہننے پر پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد فرانس کے کئی ساحلوں پر برقینی پہنی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور اُن پر جرمانے عائد کئے گئے۔ گزشتہ دنوں نیس کے ساحل پر 4 مسلح پولیس اہلکاروں نے ایک مسلمان خاتون کو برقینی زبردستی اتارنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح فرانس کے شہر کینز کے ساحل پر 34 سالہ مسلمان خاتون جو اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں، پر پولیس نے صرف اس بناء پر جرمانہ کیا کہ خاتون نے اسکارف اوڑھ رکھا تھا۔ چالان میں خاتون کے لباس کو ’’فرانس کی روشن خیالی کے اخلاقی ضابطوں‘‘ کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس موقع پر وہاں موجود نیم عریاں خواتین اور مرد حضرات کا ردعمل تضحیک آمیز تھا جنہوں نے خاتون کی فیملی پر "Go Home" (گھر جائو) کی آوازیں کسیں اور تالیاں بجائیں جس پر خاتون کی بچیوں نے رونا شروع کردیا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں بھی پیش آنے والے ایک اور واقعہ میں ایک فرنچ ریسٹورنٹ کے مالک نے حجاب پہنی دو مسلمان خواتین کو کھانا دینے سے انکار کرتے ہوئے تضحیک آمیز انداز میں یہ کہہ کر ریسٹورنٹ سے باہر نکال دیا کہ ’’مسلمان دہشت گرد ہیں‘‘۔ ان واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا اور لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے برقینی پر پابندی کو فرانسیسی حکومت کا مذہبی آزادی اور مسلمانوں کے خلاف اقدام قرار دیا۔ میں نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو میں بھی اپنے غصے پر قابو نہ پاسکا اور اس موضوع پر کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔
فرانسیسی کابینہ کی واحد مراکش نژاد مسلمان وزیر برائے تعلیم نجات ولید نے ساحل سمندر پر برقینی پہننے پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اِسے شخصی آزادی کے منافی قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام سے تہذیبوں کے درمیان خلیج پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس فرانس کے سابق صدر نکول سرکوزی نے برقینی کو ’’اشتعال انگیزی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فرانس کی ثقافت، عورت کو کپڑوں میں قید کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ نیس کے میئر نے بھی مسلمان خاتون کے ساتھ پیش آنے والے ناروا سلوک کا دفاع کرتے ہوئے برقینی کو انتہا پسندی قرار دیا جسے پہننے سے دوسرے مذاہب کے لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ نیس میں پیش آنے والے واقعہ کے خلاف لندن میں قائم فرانسیسی سفارتخانے کے باہر خواتین نے برقینی میں ملبوس ہوکر منفرد انداز میں احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھارکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ ’’ہم وہ پہنیں گے جو ہمیں پسند ہے‘‘ جبکہ بعض پلے کارڈز میں اسلاموفوبیا کے خلاف نعرے درج تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس میں برقینی پر پابندی عائد ہونے کے بعد وہاں برقینی کی فروخت میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے اور غیر مسلم خواتین بھی برقینی کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہیں۔
فرانس میں مسلمان خواتین کے خلاف پابندی پہلی بار عائد نہیں کی گئی بلکہ اس سے قبل بھی فرانس میں اسلام اور مسلمان خواتین کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ فرانسیسی حکومت نے مسلمان لڑکیوں کے اسکارف اوڑھ کر اسکول و کالج جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے جبکہ مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر جرمانے، گرفتاری اور ملازمت سے برطرفی کی سزائیں بھی مقرر ہیں۔ فرانس میں 70 لاکھ سے زائد مسلمان مقیم ہیں اور اسلام، فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ فرانسیسی باشندے گزشتہ ایک دہائی سے اسلام فوبیا کا شکار ہیں، اُن کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مذہب اسلام، فرانسیسی قدروں کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ مغرب کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اسلام کے سونامی کو نہ روکا گیا اور اس کے خلاف بند نہ باندھا گیا تو ایک دن یہ مذہب فرانس سمیت پورے مغرب کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا، اس لئے فرانس اور دیگر مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین بنانے سمیت ہر وہ اقدامات کررہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیشرفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکیں۔
مغرب نے مادی ترقی کی معراج کو پالیا ہے مگر یہ ترقی اُسے مذہب، انسانیت اور تہذیب سے دور لے جاچکی ہے اور یورپی ثقافت اخلاقی پستی کی طرف گامزن ہے۔ فرانس خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے جہاں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور کسی بھی جانور کے ساتھ ناروا سلوک قابل سزا جرم ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ کے کچھ شہروں میں ساحلوں پر کپڑے پہن کر جانے کی اجازت نہیں اور ان ساحلوں پر صرف مکمل برہنہ لوگ ہی جاسکتے ہیں لیکن یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ جسم برہنہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں اور جسم ڈھانپنے کا عمل قانون شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔قانون کے نام پر کسی مسلمان خاتون سے زبردستی کپڑے اتروانا اور اُسے اِس بات پر مجبور کرنا کہ اسے کیا پہننا چاہئے، کیا نہیں، سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو معاشرے میں نفرت اور انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے۔ فرانسیسی حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین بنانے سے گریز کرے جس سے اُن کی دل آزاری ہو اور ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ فرانس میں اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں۔

.
تازہ ترین