• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم ۔لاتعلقی یا ’’گڈکاپ۔ بیڈ کاپ‘‘ کا تعلق ؟

ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کے نومبر 2004ء میں دورۂ بھارت اور پاکستان مخالف تاریخی تقریر سے بھی کئی سال قبل 1990ء کے عشرے کا واقعہ ہے جب سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے والد مرحوم عبداللہ شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے اور امریکہ میں ایم کیو ایم کے آرگنائزر الطاف حسین کے بہنوئی محمد یونس بڑے متحرک انداز میں شکاگو سے نیویارک اور دیگر شہروں میں ایم کیو ایم کے اجتماعات، بیانات اور نمائندگی کی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے پی پی پی حکومت کے وزیرداخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر مرحوم کی سر براہی میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا مرحلہ تھا۔ محمد یونس نے نیویارک کے علاقے کوئنز کے ایک ہال میں ایم کیو ایم کے ایک اجتماع کا انتظام کیا اور مجھے مطلع کرتے ہوئے دعوت دی۔ ادھر ادھر سے مجھے یہ بھنک پڑی کہ قائد تحریک لندن سے خطاب بھی کریں گے اور الطاف حسین کی خاموش منظوری سے دوران خطاب ہال میں موجود بعض کارکن پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگائیں گے۔ اس دور میں اسمارٹ فون کا وجود ہی نہیں تھا بلکہ پاکٹ سائز کے ٹیپ ریکارڈز ہی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار تصور کئے جاتے تھے۔ لہٰذا ایک مقامی اور دو ہفت روزہ کے مالک صحافی کو ساتھ لے کر سامنے والی جیب میں ٹیپ ریکارڈ ڈالے ہال میں پہنچا تو محمد یونس نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اجتماع کی ریکارڈنگ نہیں ہوگی۔ میں نے زور دیا کہ رپورٹنگ کی درستگی کے لئے ریکارڈنگ ہم دونوں کے حق میں ہے مگر جب وہ نہ مانے تو پھر میں نے ریکارڈنگ نہ کرنے کی تمام ذمہ داری ان پر ڈالتے ہوئے ریکارڈنگ نہیں کی۔ ہم دونوں کے درمیان تعلقات باہمی احترام کے ساتھ خوشگوار تھے لہٰذا بات ختم ہوگئی اور جلسہ شروع ہوگیا۔ کچھ دیر بعد لندن سے الطاف حسین کا خطاب شروع ہوا اور نصف شب سے قبل ہی تقریر کے دوران بعض جوشیلے کارکن کھڑے ہوکر ’’بٹ کے رہے گا پاکستان۔ بن کے رہے گا مہاجرستان‘‘ کے نعرے لگانےلگے ۔ تقریر رک گئی اور ایسے نعروں کا سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہنے کے بعد پھر خطاب شروع ہوگیا۔ کسی نے ان نعروں کے بارے میں ایک بھی لفظ نہیں کہا۔ میں نے اس اجتماع کی رپورٹنگ ’’جنگ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ کو لکھ بھیجی۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ (مرحوم) نے نوٹس لیا اور ایم کیو ایم کے خلاف ان نعروں کا حوالہ دیتے ہوئے ملک دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے بیان داغ دیا۔ ادھر لندن سے ایک خطاب میں الطاف حسین نے ایسے پاکستان دشمن نعروں کی مذمت یا تردید کی بجائے مجھ غریب کی خوب خبر لی جس کے باعث ایم کیو ایم امریکہ نے ایک طویل مدت کے لئے یکطرفہ لاتعلقی اختیار کئے رکھی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد ریکارڈ کی درستگی اور ان حضرات کی انفارمیشن درست کرنا ہے جو الطاف حسین کے دورہ بھارت (نومبر2004ء) کو پاکستان دشمنی کا پہلا حوالہ سمجھتے ہیں۔
22اگست کو پاکستان میں خطاب اور پاکستان توڑنے کا ’’ذہنی تنائو‘‘ کے تحت اپنے حامیوں اور کارکنوں کو حکم اور پھر عوامی معافی پھر معافی کے صرف چند گھنٹے بعد امریکہ و کینیڈا میں اپنے حامیوں اور منتخب چند اہم کارکنوں سے دو طرفہ گفتگو اور ٹیلیفونک تقریر میں پہلے سے بھی زیادہ پاکستان کے خلاف زہر ناک تقریر اور اسرائیل، بھارت، افغانستان، ایران اور امریکہ سے رابطے اور مدد مانگ کر پاکستان کو تباہ کرنے کی ہدایات اور ان کے حامیوں کی جانب سے جواب میں اس حکم کی تعمیل کا وعدہ خود میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کیونکہ نیویارک کے وقت کے مطابق رات کے دو بجے کے قریب ختم ہونے والے اس ٹیلیفونک رابطے کی دو طرفہ گفتگو، میں خاموشی کے ساتھ خود سن رہا تھا اس عنایت پر ایم کیو ایم امریکہ کے پاکستان سے محبت کرنے والے مہربانوں کا مشکور ہوں۔ امریکہ میں الطاف حسین کی تقریر بلکہ اس کے بعد بھی جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب اور ایسی ہی ہدایات کی اطلاعات بھی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی جانب سے بھی سب سے تازہ اور سب سے واضح بیان بھی آچکا ہے کہ ’’اب ہماری فیصلہ سازی کا تعلق لندن سے نہیں پالیسی سازی کا تعلق بھی لندن سے نہیں‘‘ اور الطاف صاحب سے بھی نہیں۔ الطاف حسین کی ویٹو پاور کو بھی ختم کرنے اور لاتعلقی اختیار کرنے کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فاروق ستار کی آزادی، ساکھ اور لندن سے لاتعلقی کو تسلیم کرنے میں بہت سوں کو دشواری کا سامنا ہے۔ گو کہ لندن نے فاروق ستار کے اس دعویٰ کی نہ تو کوئی وضاحت کی اور نہ ہی کوئی تردید بلکہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے مگر عام تاثر یہی ہے کہ فاروق ستار الطاف حسین کی اشیر باد سے ہی لاتعلقی کے اعلان کا سیاسی کھیل رہے ہیں جو حالات کے نارمل ہونے اور مقاصد کے حاصل ہونے تک چلے گا۔ گویا ’’GOOD COP‘‘ اور ’’BAD COP‘‘کا کھیل ہے جس کا مقصد تحقیقات کے دوران کسی ملزم سے جرم کی تفصیل جاننے۔ اعتراف جرم کرانے کے لئے ایک تحقیقاتی پولیس افسر سخت اور ظالمانہ رویہ رکھتا ہے اور دوسرا پولیس افسر نرمی، دوستانہ رویے کے ذریعے ملزم سے قربت، اعتماد اور حقائق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہوت اہے۔ میری اطلاعات و معلومات کے مطابق فاروق ستار کی حکمت عملی کو لندن کی رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین کی خاموش مگر مکمل تائید حاصل ہے۔ فاروق ستار الطاف حسین کے سائے سے نکل ہی نہیں سکتے۔ لندن ایم کیو ایم امریکہ کینیڈا اور بیرون ملک ’’بیڈ کاپ‘‘ بن کر پاکستان کے خلاف تحریک اور پاکستان کے دشمنوں سے تعاون کرے گی اور فاروق ستار پاکستان میں ’’گڈ کاپ‘‘ کا رول ادا کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔ الطاف حسین نے اپنے امریکہ سے خطاب میں واضح طور پر پاکستانی فوج سے مقابلہ کرنے پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈیکلیئر کروانے کے مقاصد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور یہ محض دھمکی یا ذہنی تنائو نہیں بلکہ بیرون ملک ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ہدایت ہے۔ بابر غوری، ارم فاروقی، فیصل سبزواری سے برہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان، پاکستانی فوج کے بارے میں جو ہدایات جاری کی گئی ہیں وہ اب الطاف حسین کی تقریر اور امریکہ میں حامیوں سے دو طرفہ گفتگو کی اس ٹیپ پر موجود ہے جو سوشل میڈیا پر باآسانی دستیاب ہوچکی ہے۔ اب قائد تحریک الطاف حسین کے پاکستان دشمن بیانات، ارادے اور مقاصد سب کے سامنے ہیں مگر اسلام آباد سے مسلسل کنفیوژن سامنے آرہا ہے۔ ماضی میں ولی خان اور جن دیگر لیڈروں پر پاکستان دشمنی اور غداری کے جو مقدمات چلائے گئے تھے انہوں نے تو ایسے کھلے باغیانہ بیانات بھی نہیں دیئے تھے لیکن وہ مبہم بیانات کی پاداش میں جیلوں میں بند رہے۔ اگر اس وقت کنفیوژن، بے عملی اور سیاسی مصلحت و ضرورت کا رویہ رکھا گیا تو پھر اس ملک کی بقا اور سلامتی کے خلاف اس سے بھی زیادہ بلند نعرے اور پاکستان دشمن اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں بعض بااختیار حلقے حالات پر قابو اور مکمل کنٹرول کا تاثر رکھتے ہوں لیکن امریکہ و کینیڈا میں حالات کچھ اور سمت کی نشاندہی کررہے ہیں کسی خوش فہمی میں رہنا مناسب نہیں ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان میں سیاسی اور بیرون ملک باغیانہ انداز میں جنگ لڑنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ یہ کوئی خاموش انقلاب بھی نہیں ہے بلکہ لندن اور کراچی کے درمیان خاموش تعاون کا مرحلہ ہے۔ جولائی کے آخری دنوں میں ایم کیو ایم امریکہ کے سالانہ کنونشن اور وہائٹ ہائوس کے سامنے احتجاجی ریلی کے ایام میں ندیم نصرت، بابر غوری، فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم سے وابستہ متعدد حضرات سے ملاقات انٹرویو اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ فاروق ستار صاحب نے اس دوران جن امریکیوں سے ملاقاتیں کی تھیں اگر ان کا مقصد، ایجنڈا اور موضوعات گفتگو کی تفصیل سے عوام کو آگاہ فرمادیں تو اس سے ایم کیو ایم پاکستان کو فائدہ پہنچے گا اور لندن سے لاتعلقی کو تسلیم کرانے میں بھی مدد ملے گی۔ خدانخواستہ پاکستان کے بغیر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی شناخت کیا ہوگی؟ بیرونی پاسپورٹ شہریت تو دیدیں گے ثقافتی اور نسلی شناخت کیا ہوگی۔ ہمدرد بھارت بھی آپ کو کوئی شناخت یا اپنے اندر ضم کرنا بھی قبول نہیں کرے گا۔
پاکستان میں حکومتی فیصلے اور اقدامات کرنے والے بھی محض طاقت اور اختیارات کی فصیل میں رہ کر فیصلے اور اقدامات کرنے کی بجائے ماضی کے تجربات اور ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر اقدامات کریں۔ایک برطانوی شہری فہد ملک کا قتل پاکستان میں ہوا تو قتل کے ذمہ داروں کو پکڑنے کے لئے برطانوی پریشر کو اہمیت دینا پڑی ہے۔ ایک برطانوی شہری آپ کے ملک کو ایک تقریر کے ذریعے ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، پہیہ جام ہڑتال کروا ڈالتا ہے آپ کے ملک کو توڑنے کی برملا بات کرتا ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار برطانیہ سے ایسا کوئی مطالبہ کرتے ہوئے کانپنے لگتے ہیں کوئی بتلائے ہم بتائیں کیا؟

.
تازہ ترین