• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال 14اگست کو 70ویں یوم آزادی پر ہمارے عزیز دوست اور میرے شہر وزیرآباد کے جواں سال شاعر زاہد مسعود کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف اور مستقبل کی حوصلہ افزائی کے لئے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ہے۔ زیر مطالعہ کالموں میں آپ زاہد مسعود کی چند نظمیں پڑھ چکے ہوں گے۔ جدید زاویئے کی سوچ میں معروض کی صداقتوں کا شعور رکھنے والے اس جواں سال شاعر نے فکر و نظر کا ایک طویل سفر طے کرنا ہے جس میں انہیں شاید کچھ نئے افق دریافت کرنے کا موقع بھی ملے گا جن کے بغیر کوئی بھی سفر مکمل نہیں ہوتا۔بتا رہے تھے کہ لاہور میں نئی بستیوں کی تعمیر کے اشتہارات شائع ہونا شروع ہوئے تو انہوں نےاپنے بزرگوں سے کہا کہ 50,40ہزار میں لاہور میں ایک چھوٹا رہائشی پلاٹ مل سکتا ہے۔ بزرگوںکا جواب تھا کہ رہائش کے لئے لاہور کس نے جانا ہے؟ اس فقرے کے اصل الفاظ تھے کہ چالیس پچاس ہزار روپے کا انتظام نہیں ہوسکتا ورنہ لاہور میں رہائش اختیارکرنے سے کس کو انکار ہوسکتا تھا۔کہی جانے والی اصل باتوں کو چھپا کر مختلف الفاظ فراہم کرنے والے دور کے حساس لوگوں کو محض باتوں کے اصل معانی یا الفاظ کی ہی بندش نہیں ہوتی زندگی کے تمام شعبوں کی صداقتوں کا تعاقب بھی کرنا پڑتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ہر شخص کی ایک سچائی ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ صداقت بھی ہو۔ یہ سچائی صداقت سے بہت فاصلے پر بھی ہوسکتی ہے۔زاہد مسعود نے گریبان کےقارئین کے لئے ایک نظم عنایت فرمائی ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’آئو مل کر ڈر سے نکلیں‘‘
آئو
ہوائوں کو بلائیں
سازگار موسم کو آواز دیں
موت
ڈائننگ ٹیبل کی ساری کرسیاں خالی کر رہی ہے
قبروں کے کتبے لکھنا
بہترین ادب ہے
ہم دشمن کی تلاش میں ہر بار
گھر لوٹ آتے ہیں
جس کی خستہ دیوار پر ٹنگی تصویر میں
ہٹلر اور چرچل مل کر سگار پی رہے ہیں
ہم نے جنگ کا طوق
چوم کر گلے میں ڈالا
اور دشمن کو کوٹ کی اندرونی جیب میں چھپا لیا
آئو
ہوائوں کو بلائیں
سازگار موسم کو آواز دیں
مل جل کر گائیں اورروئیں
آئینہ دیکھیں
اور
عکس سے کلام کریں۔

.
تازہ ترین